1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سینیٹ کو مؤثر ادارہ بنائیں گے‘، نو منتخب چیئرمین رضا ربانی

شکور رحیم، اسلام آباد12 مارچ 2015

پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے نومنتخب چیئرمین پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی اور ڈپٹی چیئرمین جمعیت علماء اسلام کے سینٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Eq30
ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں پیپلزپارٹی کے سینٹر رضا ربانی (دائیں سے دوسرے) نے کہا کہ وہ سینیٹ کو ایک مؤثر ادارہ بنائیں گے
ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی (دائیں سے دوسرے) نے کہا کہ وہ سینیٹ کو ایک مؤثر ادارہ بنائیں گےتصویر: DW/S. Rahim

جمعرات کے روز سینٹ کے اجلاس میں حکمران مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار نے پریزائڈنگ آفیسر کے فرائض انجام دیے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کا بطور چئیرمین انتخاب سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والی ایک مفاہمت کے نتیجے میں متفقہ طور پر کیا گیا۔ تاہم ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لیے سینیٹ میں تمام بڑی جماعتوں کے نامزد امیدوار جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری اور سینیٹ میں پہلی بار نمائندگی حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز کے درمیان مقابلہ ہوا۔ مولانا عبدالغفور حیدری چوہتر ووٹ حاصل کر کے باآسانی جیت گئے۔ جماعت اسلامی کی حمایت یافتہ اور چھ نشستوں کی حامل پی ٹی آئی کے امیدوار نے خلاف توقع سولہ ووٹ حاصل کیے۔

اپنے انتخاب کے فوری بعد صدر مملکت کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے آئینی تقاضے کی وجہ سے چیئرمین سینیٹ نے قائم مقام صدر کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔

جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے ڈپٹی چیئرمین کے طور پر اپنے عہدےکا حلف اٹھا لیا ہے
جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے ڈپٹی چیئرمین کے طور پر اپنے عہدےکا حلف اٹھا لیا ہےتصویر: DW/S. Rahim

قائم مقام صدر رضا ربانی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بطور چیئرمین سینیٹ ان کی اولین ترجیح ایوان بالا کو ایک مؤثر قانون ساز ادارہ بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان بالا کے بارے میں یہ تاثر درست نہیں کہ وہ قومی اسمبلی سے کی جانے والی ہر قانون سازی پر رسمی کارروائی کر کے اس کی منظوری دے دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ چند سالوں میں سینیٹ نے بہت سے مواقع پر قومی اسمبلی سے کی جانے والی قانون سازی کی من وعن منظوری نہیں دی۔ چند مواقع پر قومی اسمبلی سے آنے والے بلوں کو منظور نہیں کیا گیا، بعض دفعہ ان میں مؤثر ترامیم کی بھی سفارشات کی گئیں‘۔

سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں رضا ربانی نے کہا:’’ایسے الزامات ہمیشہ لگتے آئے ہیں لیکن اس مرتبہ تمام بڑی جماعتوں کی حمکت عملی کے باعث اس طرح کے رجحان کی مؤثر طریقے سے حوصلہ شکنی کی گئی اور آپ کے سامنے ہے کہ نتائج بہترین رہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ متفقہ چئرمین کے انتخاب پر وہ تمام جماعتوں کے شکر گزار ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ خود پر ذمہ داری کا ایک بڑا بوجھ بھی محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’سینیٹ میں پورے ملک کی تمام اکائیوں کی نمائندگی موجود ہے۔ ان کے حقوق کا آئین میں رہتے ہوئے تحفظ کرنا اور انہیں مختلف قومی معاملات پر یکجا رکھنا ایک بڑی اہم ذمہ داری ہے اور میرا یقین ہے کہ صرف آئین پر کاربند رہ کر ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘

پاکستان میں بائیں بازو کے سرگرم رہنما اور آئین میں اٹھارویں ترمیم کے خالق سمجھے جانے والے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وہ تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے کیونکہ چیئرمین سینیٹ کا آئینی عہدہ کسی پارٹی کا نہیں بلکہ وفاقیت کی علامت ہے۔

رضا ربانی (دائیں سے دوسرے) نے 2013ء میں صدر کے عہدے کے لیے بھی انتخاب میں حصہ لیا تھا لیکن اُن کے مقابلے میں ممنون حسین صدر منتخب ہو گئے تھے
رضا ربانی (دائیں سے دوسرے) نے 2013ء میں صدر کے عہدے کے لیے بھی انتخاب میں حصہ لیا تھا لیکن اُن کے مقابلے میں ممنون حسین صدر منتخب ہو گئے تھےتصویر: Getty Images/AFP

سینیٹ کے نو منتخب ڈپٹی چئیرمین مولانا عبدالغفور حیدری کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے اور ان کا سیاسی پلیٹ فارم شروع سے ہی جمعیت علماء اسلام (ف) رہی ہے۔ اپنے انتخاب کے بعد ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتےہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اداروں کے استحکام پر یقین رکھتے ہیں اور سینیٹ کو ایک مضبوط ادارہ بنانے کی جدوجہد کریں گے۔ انہوں نے کہا:’’ایک پسماندہ اور محروم صوبے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے میری کوشش ہو گی کہ ملک کے تمام محکوم اور پسماندہ علاقوں اور طبقات کی آواز اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں نہ صرف پہنچے بلکہ قانون سازی کے ذریعے ان مسائل کا مؤثر حل بھی نکالا جا سکے۔‘‘

مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ان کی جماعت وفاق کی مضبوطی پر یقین رکھتی ہے لیکن وسائل اور مالی معاملات میں صوبائی خود مختاری کی بھی حامی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا حیدری نے کہا کہ ان کے مقابلے میں امیدوار لا کر سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کی فضاء کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آج جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرا کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ اب خرید و فروخت اور منافقت کی سیاست دم توڑ چکی ہے۔

دوسری جانب حکومت نے فاٹا کے ارکین کے لیے سینیٹ انتخابات میں طریقہٴ کار کی تبدیلی سے متعلق جاری کیا گیا صدارتی آرڈیننس جمعرات کو واپس لے لیا ہے۔

واضح رہے کہ پانچ مارچ کو سینیٹ کی باون خالی نشستوں میں سے 48 پر انتخابات ہوئے تھے۔

فاٹا سے سینیٹ کی چار نشستیں اب بھی خالی ہیں۔ سینٹ انتخابات کے لیے پولنگ سے ایک رات قبل یعنی چار مارچ کو فاٹا کے لیے سینیٹ کے انتخاب کے طریقۂ کار میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں فاٹا سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے والے چھتیس امیدواروں نے ان انتخابت کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ صدارتی آرڈیننس کی واپسی کے بعد اب فاٹا میں انتخابات کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی اس کے لیے پولنگ ہو گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید