’سیریل کِلر‘ چارلس سوبھراج کی سزا برقرار
31 جولائی 2010جمعہ تیس جولائی کو سپریم کورٹ کے جج رام کمار پرساد شاہ نے کہا کہ براہ راست شواہد کی کمی کے باوجود اُنہیں ذیلی عدالت کے 2004ء کے فیصلے میں کوئی غلطی دکھائی نہیں دیتی۔ ذیلی عدالت نے سوبھراج کو قرائنی شہادت کی بنیاد پر سزا سنائی تھی۔
جج پرساد شاہ نے کہا، ’لہٰذا، ہم ان کا فیصلہ برقررا رکھتے ہیں‘۔ جج کے اس فیصلے کے وقت کمرہء عدالت میں درجنوں افراد موجود تھے۔ تاہم سوبھراج وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ خود کو بے قصور قرار دیتا ہے۔ اس کی وکیل شکنتلا تھاپا نے عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’یہ ایک عمررسیدہ شخص کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘
چھیاسٹھ سالہ فرانسیسی شہری چارلس سوبھراج پر 1975ء میں ایک امریکی سیاح کو قتل کرنے کا الزام ہے اور نیپال میں اسی مقدمے میں انہیں سزا ہوئی ہے۔ سوبھراج پر 1970ء کی دہائی میں مختلف ایشیائی ممالک میں 20 سے زائد مغربی شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ اس باعث وہ ایک بدنام کردار کے طور پر ابھرا، جس پر دو کتابیں لکھی گئی، ایک فلم بنی اور متعدد تحریریں منظر عام پر آئیں۔
وہ 2003ء سے کھٹمنڈو کی ایک جیل میں قید ہے۔ اس وقت اسے نیپال کے دارالحکومت میں ایک جوئے خانے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ قبل ازیں اس پر بھارت میں بھی قتل کی دیگر وارداتوں میں ملوث ہونے کا الزام ثابت ہوا اور اسے 21 سال قید کی سزا ہوئی۔
خیال رہے کہ نیپال میں عمر قید کی سزا پانے والے مجرم عام طور پر 20 سال جیل میں گزارتے ہیں۔
سوبھراج کے والد کا تعلق بھارت جبکہ والدہ کا ویت نام سے ہے۔ وہ بھارت میں طویل سزا کاٹنے کے بعد 1997ء سے فرانس میں رہائش پذیر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیپالی سپریم کورٹ نے ان کی اپیل منظور کی، تو وہ فرانس لوٹنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی