1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیب اور ناشپاتی کے ملاپ سے نیا پھل

افسر اعوان18 اگست 2015

جرمن محقق ویرنر ڈیئرینڈ ایک گرین ہاؤس کے بغلی راستے سے اندر داخل ہوتے ہیں اور تین نو خیز پودوں کو دیکھتے ہیں، ان میں سے ایک سیب کا ہے، ایک ناشپاتی کا جبکہ ایک سیب اور ناشپاتی کے ملاپ سے بننے والے پھل کا۔

https://p.dw.com/p/1GHOw
تصویر: DW/G. Grün

یہ ہائبرڈ یا یہ دو نسلا چھوٹا سا درخت بظاہر دیکھنے میں سیب کے درخت جیسا لگتا ہے جبکہ اس کے پتے ناشپاتی کے درخت کی شکل کے ہیں۔ اس پر لگا ہوا پھل بھی سیب کی شکل کا ہے۔ تاہم پومی کلچر یا باغبانی کے پروفیسر ڈیئرینڈ کہتے ہیں، ’’اس کا ذائقہ اور غذائی خواص ناشپاتی سے زیادہ قریب ہوں گے۔‘‘

ڈیئرینڈ اور اوسنابُروک یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز میں ان کے ساتھی تھِیلو فِشر Fischer اور ہیننگ شاخٹ Henning Schach ایک ایسی چیز تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قدرتی طور پر وجود نہیں رکھتی۔

ڈیئرینڈ گزشتہ قریب 13 برس سے سیبوں کی نئی اقسام کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے لیے انہیں ’لوور ایلبے بریڈنگ انیشی ایٹیو‘ کا تعاون حاصل ہے جسے مختصراﹰ ZIN کا نام دیا جاتا ہے اور جو دراصل ہیمبرگ کے قریب آلٹس لینڈ کے علاقے میں پھل اگانے والی 200 کمپنیوں کی ایک تنظیم ہے۔

محققین اور پھل پیدا کرنے والے اس وقت سیب اور ناشپاتی کے ملاپ سے نئے ہائبرڈ پھل کی تیسرے نسل یا ’ایف ٹو ہائبرڈ‘ پر کام کر رہے ہیں۔ ہائبرڈ پھل کو سیب کی مختلف ورائیٹیز اور پھر آپس میں بھی ’کراس بریڈ‘ کرایا جاتا ہے۔ فشر کہتے ہیں، ’’ہم امید کر رہے ہیں کہ اس طرح ایک اچھی کوالٹی کا پھل تیار ہو سکے گا‘‘۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا ہونے میں قسمت کا عمل دخل بھی موجود ہے۔

سیب کی کوئی نئی ورائٹی تیار کر کے مارکیٹ میں اس کی فروخت تک 15 سے 20 برس لگتے ہیں
سیب کی کوئی نئی ورائٹی تیار کر کے مارکیٹ میں اس کی فروخت تک 15 سے 20 برس لگتے ہیںتصویر: picture alliance/WILDLIFE

ایک اچھا ذائقہ محض ایک صفت ہے جو اہم ہے، اس کے علاوہ بیماریوں سے بچاؤ کی صلاحیت بھی اہم ہے۔ مثال کے طور پر اگر ناشپاتی کے درخت کی جینیاتی خواص کو سیب کے درخت کے ساتھ ملاپ کرایا جائے تو سیب کی بیماریوں کا امکان کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے پیسٹی سائیڈز یا کیڑے مار ادویات کا استعمال کم ہو سکتا ہے۔

سیب اور ناشپاتی کے جینیاتی ملاپ سے ایک نیا پھل تیار کرنے کی کوششوں میں صرف جرمن ماہرین ہی مصروف نہیں ہیں بلکہ ڈیئرینڈ کے بقول نیوزی لینڈ میں بھی ایک ایسی ہی تحقیق جاری ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ دنیا کے کسی اور حصے میں بھی ایسا ہی کام چل رہا ہو مگر وہ اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ ویرنر ڈیئرینڈ اور ان کے ساتھیوں کے مطابق سیب کی کوئی نئی ورائٹی تیار کر کے مارکیٹ میں اس کی فروخت شروع ہونے میں قریب15 سے 20 برس تک کا وقت لگتا ہے۔