سویڈن کی مسجد پر نامعلوم حملہ آوروں کی نفرت انگیز کارروائی
27 نومبر 2016اسٹاک ہولم کی اس مسجد میں داخل ہو کر نامعلوم افراد نے نماز ادا کرنے کے ہال کی دیواروں پر رنگین اسپرے کر کے اُنہیں خراب کر دیا۔ اس کے علاوہ رنگوں سے انہوں نے دیواروں پر سواستیکا یا نازی جرمن حکومت کے نشان بھی بنائے اور ہال کی دیواروں پر مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے الفاظ بھی لکھے۔ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ حملہ کرنے والے مسجد کی عمارت میں داخل ہو کر فائرکریکرز بھی چلاتے رہے۔
یہ کارروائی ہفتہ، چھبیس نومبر کی صبح کی نماز کے بعد کی گئی۔ اُس وقت تمام لوگ نماز ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ صرف ایک شخص ہال میں عبادت میں مصروف تھا۔ ان نامعلوم افراد نے اِس شخص کو بظاہر کوئی ضرب نہیں پہنچائی لیکن وہ دھاوا بولنے کے بعد ہونے والے شور شرابے اور فائرکریکرز سے انتہائی زیادہ خوف زدہ ہو گیا تھا۔ سویڈش نیوز ایجنسی ٹی ٹی کے مطابق پولیس جب مسجد پہنچی تو یہ شخص ڈر اور خوف سے کانپ رہا تھا۔
پولیس نے اِس واقع کی تفتیش شروع کرتے ہوئے اِسے ابتدائی طور پر غنڈہ گردی اور نفرت کی وجہ سے کیا جانے والا جرم قرار دیا ہے۔ نیوز ایجنسی کے مطابق اس حملے کے کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کسی شخص کو شبے کی بنیاد پر بھی حراست میں نہیں لیا گیا۔ پولیس کے مطابق مہاجرین کے مراکز کے قیام کے بعد سے انتہا پسند مساجد اور ریفیوجی مراکز کو نشانہ بنانے سے چوکتے نہیں۔
اس مسجد کو سن 1985 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے ایک بانی مصطفیٰ تُومترک نے سویڈش نیوز ایجنسی ٹی ٹی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نفرت پر مبنی اس کارروائی کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی اور جو کچھ سویڈش معاشرے میں دیکھا جا رہا ہے، وہ یہاں کے باشعور انسانوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ تُومترک سویڈش دارالحکومت کے مسلمانوں کی تنظیم کے نمائندے بھی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُن کے ملک سویڈن میں ایسی نامناسب اور قابلِ مذمت وارداتیں کبھی رونما نہیں ہوئی تھیں۔
یہ امر اہم ہے کہ سویڈن نے سن 2014 اور سن 2015 میں دو لاکھ 45 ہزار مہاجرین کو پناہ دی تھی اور اِسے اِس ملک میں غیرملکی پناہ گزینوں کی ریکارڈ آبادکاری قرار دیا گیا تھا۔