1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سویڈن میں تارکین وطن کی مخالف پارٹی: اولین کامیابی کی توقع

11 ستمبر 2010

سویڈن کے گزشتہ عام انتخابات میں ایک جنوبی ساحلی شہر میں تارکین وطن کی مخالف سیاسی جماعت سویڈن ڈیموکریٹک کوکافی زیادہ ووٹ ملے تھے۔ اب یہ پارٹی 19 ستمبر کو پہلی پارلیمانی نشست کے حصول کی توقع کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/P9tn
تصویر: AP

سویڈن کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ لبرل معاشروں میں ہوتا ہے اور گزشتہ انتخابات کے دوران انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والی سویڈن ڈیموکریٹس نامی پارٹی کو حاصل تائید میں اضافے سے حکومت اور عوام دونوں کو ہی شدید دھچکا لگا تھا۔

اس پارٹی کے رہنماؤں کو توقع ہے کہ آج سے قریب ایک ہفتے بعد ہونے والے انتخابات میں انتہائی نظریات کی حامل یہ پارٹی پہلی مرتبہ ملکی پارلیمان میں کافی زیادہ نشستیں حاصل کر لینے میں کامیاب ہو جائے گی۔

یہ امکان بھی ہے کہ یہی جماعت سٹاک ہولم میں بڑی پارٹیوں کے لئے نئی حکومت کے قیام کو مشکل بھی بنا سکتی ہے۔

سویڈن کے جنوبی ساحلی شہر لینڈز کرونا میں اس پارٹی کے 77 سالہ مقامی کونسلر بظاہر دھیمی گفتگو کرنے والے ایک ایسے بزرگ شہری نظرآتے ہیں، جو بڑی خوش مزاجی سے بات کرتے ہیں۔ لیکن سوینی ہاکسن کے سیاسی نظریات بہت سخت اور غیر لچکدار ہیں۔

Illegale Immigranten warten in einer Schlange
سویڈن کا رخ کرنے والے غیر ملکیوں کے بہتر سماجی انضمام کی زیادہ کو ششیں نہیں کی گئیںتصویر: AP

وہ کہتے ہیں کہ سویڈن ڈیموکریٹس نامی یہ پارٹی ملک میں تارکین وطن کی آمد میں واضح کمی کے خواہشمند ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’ہم چاہتے ہیں کہ سویڈن میں غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کی شرح کم کر کے تقریبا اتنی ہی کر دی جائے، جتنی کہ ہمسایہ شمالی یورپی ملکوں فن لینڈ اور ڈنمارک میں نظر آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سویڈن اب تک اپنے ہاں جتنے غیر ملکیوں کو قبول کرتا ہے، مستقبل میں ان کی تعداد موجودہ شرح کا تقریبا 20 فیصد ہونی چاہئے۔‘‘

سوہنی ہاکسن کے بقول سویڈن ڈیموکریٹس، جس بات کو ذمہ دارانہ امیگریشن پالیسی کا نام دیتے ہیں، اس کی رو سے آئندہ اس ملک سے زیادہ سی زیادہ غیرملکیوں کو ملک بدر بھی کیا جانا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ سویڈن میں رہنے والے، جو غیر ملکی تارکین وطن جرائم کے مرتکب پائے جائیں، انھیں بلاتاخیر ان کے آبائی وطنوں میں بھجوا کر داخلی سلامتی کوبہتر بنانے کی کوششیں کی جانی چاہئے۔

سویڈن ڈیموکریٹس کی سیاسی مقبولیت میں اضافے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس ملک میں سال ہا سال تک غیر ملکی تارکین وطن کو بڑی تعداد میں اپنے ہاں قبول تو کیا، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے سویڈن کا رخ کرنے والے غیر ملکیوں کے بہتر سماجی انضمام کی زیادہ کو ششیں نہیں کی گئیں۔

اس سویڈش سیاسی جماعت کے رہنما جمی ہاکیسن ہیں۔ جمی کے نقاد انہیں نسل پرست قرار دیتے ہیں لیکن وہ خود اس سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے بقول امیگریشن پالیسی پر تنقید کرنا نسل پرستی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سویڈن میں چند خاص نسلی گروپوں کو خاص طرح کے حقوق حاصل نہیں ہونے چاہئیں۔

جمی ہاکیسن کے بقول سویڈن میں مذہبی آزادی پائی جاتی ہے، جو آئندہ بھی ہونی چاہئے :’’لیکن میں اس بات کے خلاف ہوں کہ معاشرہ خود کو مسلم اقلیت کی سوچ کے مطابق تبدیل کرے۔‘‘

رپورٹ : عصمت جبیں

ادارت : عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں