سوڈانی صدر البشیر کے وارنٹ گرفتاری
4 مارچ 2009اس عدالت نے حسن البشیر پر نسل کشی کا الزام نہیں لگایا۔ دی ہیگ میں آئی سی سی نامی اس عدالت کی خاتون ترجمان لارنس بلیئرون نے بتایا کہ عمر البشیر پر دانستہ طور پر دارفور کی آبادی کے ایک اہم حصے پر حملوں کی ہدایات جاری کرنے کا الزام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں قتل و غارت اور جنسی زیادتیوں جیسے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
لارنس بلیئرون نے کہا کہ دارفور میں پرتشدد کارروائیاں سوڈانی حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی منصوبے کا نتیجہ تھیں لیکن نسل کشی کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوڈانی حکومت سے صدر بشیر کی گرفتاری میں تعاون کرنے کی درخواست کی جائے گی: " آئی سی سی کی جانب سے کسی سربراہ مملکت کی گرفتاری کے لئے جاری کیا گیا یہ پہلا وارنٹ ہے۔"
سوڈانی صدر عمرحسن البشیر نے اپنے خلاف ان الزامات سے انکار کیا ہے جبکہ ان کے ایک معاون مصطفیٰ اسمعٰیل نے ایک سوڈانی ٹی وی کو بتایا کہ اس فیصلے سے خرطوم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اُدھر برطانیہ میں تعینات سوڈانی سفیر عمر صدیق نے کہا ہے کہ خرطوم حکومت اس فیصلے کو مسترد کرتی ہے: "سوڈانی حکومت ان الزامات کو نہیں مانتی اور ہمیں یقین ہے کہ سوڈان آئی سی سی کی عمل داری میں نہیں آتا۔ "
آئی سی سی کے اس فیصلے کے بعد سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں صدر حسن البشیر کی حمایت میں مظاہرے شروع ہوئے جبکہ دارالحکومت میں پہلے سے بڑے پیمانے پر سیکیورٹی دستے موجود ہیں۔
سوڈانی صدر کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے جانے کے لئے آئی سی سی کے پروسکیوٹر لوئیس مورینو نے درخواست جولائی 2008 میں کی تھی۔ اس عدالت نے 2007 میں بھی ایک سوڈانی وزیر احمد ہارون اور ملیشیا رہنما علی عبدالرحمان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ تاہم سوڈانی حکومت نے ان دونوں کو اس عدالت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق دارفور میں چھ سالہ تنازعے میں اب تک تقریبا تین لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر بھی ہوئے۔