سوچی کی جیل منتقلی پر عالمی برادری کی ناراضگی
15 مئی 2009جرمن وزرات خارجہ نے سوچی کی جیل منتقلی پرتشویش ظاہر کرتے ہوئے انکی رہائی اور نظربندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کو آنگ سان سوچی پر نئے الزامات لگائے گئے۔ انہیں اپنے گھر میں ایک امریکی شہری کو ٹھہرانے پر پانچ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔انہیں گھر سے جیل منتقل کرنے کے بعد الزامات سے آگاہ کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف مقدمے کی سماعت 18 مئی کو ہوگی۔
آنگ سان سوچی پر الزام ہے کہ انہوں نے نظربندی کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک امریکی شہری جان ویلیئم کو دو روز تک اپنے گھر پر ٹھہرایا۔ بعدازاں جان ویلیئم کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ میانمار کے سرکاری میڈیا کے مطابق ویلیئم کی جانب سے سوچی سے ملنے کی یہ دوسری کوشش تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے سوچی کے خلاف اس نئے مقدمے کی مذمت کی ہے جس کی سماعت آئندہ پیر کو ہو گی۔ اپوزیشن سیاستدانوں کا الزام ہے کہ اس مقدمے کے ذریعے حکومت 63 سالہ سوچی کو آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا چاہتی ہے۔ فورم فار ڈیموکریسی کی رکن Soe Aun نے میانمار کے عوام حکومت کے اس فیصلے پر سخت ناراض ہیں:"یہ مضحکہ خیز ہے کہ وہ آنگ سان سوچی کو دُور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور نئے الزامات کے تحت قید میں رکھے ہوئے ہیں۔"
نوبل امن انعام یافتہ سوچی کی جماعت قومی لیگ برائے جمہوریت نے 1990 کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی تھی تاہم فوج نے اسے حکومت سازی کی اجازت نہیں دی تھی۔ ماضی میں برما اور اب میانمار کہلانے والی جنوب مشرقی ایشیا کی اس ریاست میں 1962 سے فوج برسراقتدار ہے۔
سوچی کی حالیہ نظربندی رواں ماہ کے آخر میں ختم ہو رہی ہے۔ تاہم اب یہ امر کافی حد تک یقینی ہو گیا ہے کہ نئے قانونی الزامات کے ذریعے انہیں 27 مئی کے بعد بھی رہا نہیں کیا جائے گا۔ میانمار کی یہ خاتون سیاستدان گذشتہ 19 برسوں کے دوران 13 برس کسی نہ کسی الزام میں زیر حراست رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے قانونی ماہرین کا الزام ہے کہ آنگ سان سوچی کی مسلسل نظربندی سیاسی اخلاقی ضابطوں کے علاوہ میانمار کے ریاستی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔ میانمار میں موجود ہومین رائٹس واچ کی ایک اہلکار Sunai Pasuk نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:"اس صورت حال میں میانمار کی فوجی حکومت کا اصل چہرہ ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ وہ بے رحم ہے۔"
اقوام متحدہ اورانسانی حقوق کی کئی بین الاقوامی تنظیموں نے سوچی کی صحت پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے میانمار حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سوچی کے ڈاکٹروں کو ان سے ملنے کی اجازت دی جائے۔