1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوچا نہ تھا کہ یورپی پولیس اتنی ظالم ہو گی، پاکستانی مہاجر

شمشیر حیدر
1 اپریل 2017

کبھی پولیس انہیں لاٹھی چارج اور کتوں کی مدد سے واپس دھکیلتی ہے تو کبھی انسانوں کے اسمگلر ان سے پیسے چھین کر انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ سربیا میں پھنسے تارکین وطن کے لیے یہ باتیں معمول بن چکی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2aUMS
Serbien gestrandete Flüchtlinge auf dem Weg in die EU in Belgrad
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic

یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کے خواہش مند ایسے ہزاروں تارکین وطن ’بلقان روٹ‘ بند ہونے کے بعد سے سربیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق سربیا میں آٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن کو باقاعدہ شمار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق افغانستان، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ممالک عراق اور شام سے ہے۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

یورپ میں پناہ کے متلاشی یہ لوگ اقوام متحدہ اور سربیا کی حکومت کی جانب سے بنائے گئے کیمپوں میں بھی رہ رہے ہیں لیکن ہزاروں ایسے بھی ہیں جنہیں مشرقی یورپ کی شدید سردی میں بھی کھلے آسمان تلے رہنا پڑ رہا ہے۔

مغریی یورپ نہ پہنچ سکنے اور سربیا کے حالات سے مایوس ان تارکین وطن میں پائی جانے والی بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے اثرات کبھی مہاجرین کے باہمی جھگڑوں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں تو کبھی دشوار گزار اور کڑی نگرانی والی سرحد عبور کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو جانے کی صورت میں۔

ایسی کوششوں کے دوران انہیں سکیورٹی فورسز کی جانب سے بھی سختی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والا اکیس سالا نجم خان بھی بلغراد کے ایک پارک میں پناہ لیے ہوئے ہے اور کئی مرتبہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کر چکا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے نجم خان کا کہنا تھا، ’’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یورپی پولیس اتنی ظالم ہو سکتی ہے۔‘‘

نجم قریب دو ہفتے پہلے ہی بلغراد پہنچا تھا اس کا کہنا ہے کہ بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں پولیس اہلکار اس متروک عمارت میں داخل ہوئے جہاں وہ کئی دیگر تارکین وطن کے ہمراہ غیر قانونی طور پر مقیم تھا۔ نجم کے مطابق، ’’انہوں نے ہمیں مارا پیٹا، ہمیں تھانے لے گئے۔ پھر ہمیں کیمپ منتقل کرنے کے دوران بھی ہم پر تشدد کیا گیا۔‘‘

بلغاریہ سے سربیا آنے کے فوری بعد نجم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کی لیکن ہنگری کے چوکنے سرحدی محافظوں نے انہیں روک لیا۔ نجم کا کہنا تھا، ’’انہوں نے ہمیں ایک قطار میں منہ کے بل لیٹنے پر مجبور کیا پھر ہمارے اوپر چلنے لگے اور قہقہے لگانے لگے۔ انہوں نے ہمارے چہروں پر شراب بھی پھینکی۔ ہمارے موبائل فون چھین کر انہیں توڑ ڈالا، لیکن ہمارے پیسے نہیں چھینے۔‘‘

سربیا، کروشیا اور ہنگری کی حکومتیں تارکین وطن کی جانب سے پولیس تشدد کے الزامات کی نفی کرتی ہیں۔ کروشیا کا کہنا ہے کہ انہیں کسی زیادتی کا ’کوئی ثبوت نہیں‘ ملا تو ہنگری کا کہنا ہے کہ اس کے سکیورٹی اہلکار ’انسانی وقار کو پیش نظر رکھ کر‘ تارکین وطن کو روکتے ہیں۔

تاہم پاکستانی تارکین وطن کے علاوہ افغان، شامی اور عراقی تارکین وطن نے بھی پولیس کی جانب سے ایسے پر تشدد برتاؤ کی شکایات کی ہیں۔ بلغراد میں ڈاکٹر وِد آؤٹ بارڈرز سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن آندریا کونتینتا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’سرحدوں پر نگرانی سخت ہونے کے بعد تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے پاس آنے والے نصف سے زائد مریض تشدد کی وجہ سے زخمی ہوتے ہیں۔‘‘

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

سربیا کی شدید سردی میں پھنسے بے گھر تارکین وطن