1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سونامی لہروں کی تباہی کے پانچ سال

26 دسمبر 2009

آج سے ٹھیک پانچ سال قبل سونامی لہروں کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان انڈونیشیا کو پہنچا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ملک کے مغربی صوبے آچے میں سونامی کے باعث ایک لاکھ ستر ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/LDmy
تصویر: AP

صوبے آچے کے دارالحکومت بندا آچے میں پانچ سال قبل زلزلے کی تباہی کے نشانات دکھائی نہیں دے رہے۔ زلزلے کے نتیجے میں جامع مسجد کو بھی نقصان پہنچا تھا لیکن اب اس کی دیواریں چمک رہی ہیں، کیونکہ مرمت کے بعد انہیں خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔ دکانیں کھلی ہیں، کافی شاپس میں بھی رونق ہے، اور بیشتر متاثرہ شہری بالکل نئے یا مرمت شدہ گھروں میں آرام سے رہ رہے ہیں۔

لیکن تمام شہریوں کو نئے یا مرمت شدہ گھر نصیب نہیں۔ ساحل کے نزدیک اب بھی لکڑیوں کے بنےکئی عارضی گھر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہیندرا ستیاوان، اس کے اہل خانہ اور پندرہ دیگر افراد اب بھی لکڑی کے ایسے ہی ڈھانچوں میں رہائش پذیر ہیں، جو بنیادی طور پر عارضی تھے۔ تھکن سے چور اور مایوسی سے نڈھال ستیاوان کہتے ہیں:’’سونامی میں میری بیوی کے والدین جاں بحق ہو گئے۔ پانچ سال گزرنے کے بعد وہ آج بھی اس مکان کا انتظار کر رہے ہیں، جس کا وعدہ حکومت نے اُن سے کیا تھا۔‘‘

Tsunami / Gedenken / Banda Aceh / Indonesien
آچے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں بدھ مت کے پیروکاروں کی دعائیہ تقریبتصویر: AP

سونامی کی تباہ کاریوں کے بعد انڈونیشیا کی حکومت نے BRR کے نام سے ایک خصوصی ایجنسی تشکیل دی تھی۔ اس ایجنسی نے گزشتہ پانچ سال کے دوران متاثرین کے لئے ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد مکانات تعمیر کرائے۔کلاؤس پیٹرز جرمنی کے ایک غیر سرکاری ادارے ’جرمن ایگرو ایکشن‘ کے ساتھ منسلک ہیں۔ پیٹرز BRR کے کام کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں:’’کسی بھی ایجنسی پر تنقید کرنا آسان کام ہے۔ مگر بہت مشکل حالات میں جس طرح اس ادارے نے کام کیا وہ ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اتنی خطیر رقم کے پروجیکٹ کے باوجود کوئی فراڈ، دھوکہ دہی کا واقعہ یا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔‘‘

تباہ کن سونامی لہروں کے بعد جرمن ایگرو ایکشن سمیت دنیا بھر سے بیسیوں امدادی اداروں اور تنظیموں نے انڈونیشیا کے صوبے آچے کا رخ کیا تھا۔ نہ صرف ان اداروں نے مکانات اور سڑکیں تعمیر کیں بلکہ اس صوبے کے لئے روزگار کے کئی مواقع بھی کھول دئے۔ ان بیرونی اداروں نے مقامی سطح پر ڈرائیور، مترجم، مزدور اور ہنرمند افراد کو کنٹریکٹ دئے۔گزشتہ پانچ سال کے دوران آچے میں لوگوں کے پاس بہت کام ہوا کرتا تھا، لیکن اب آہستہ آہستہ اس میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ بیشتر غیر ملکی امدادی ایجنسیاں اب انڈونیشیا سے واپس جا رہی ہیں۔

Banda Aceh nach dem Tsunami Indonesien im Januar 2005
آچے کی گلیوں میں سونامی لہروں کا چڑھا ہوا پانیتصویر: picture-alliance / dpa

آچے کے دارالحکومت بندا آچے سے دو گھنٹوں کی مسافت کے بعد ہم سگلی نامی علاقے میں پہنچتے ہیں۔ ’جرمن ایگرو ایکشن‘ نے یہاں خواتین کے لئے بہت سے منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ روسیدہ گزشتہ پندرہ سال سے سلائی کا کام کر رہی ہیں اور ایک سلائی گروپ کی لیڈر ہیں۔ وہ کہتی ہیں:’’سونامی کے بعد انہوں نے ایسی خواتین کو اکٹھا کیا جنہیں سلائی کے بارے میں تھوڑا بہت علم تھا۔ پھر انہیں تربیت فراہم کی اور اب یہ خواتین کام کر سکتی ہیں، گروپ میں بھی اور اپنے گھروں میں بھی۔‘‘

روسیدہ آج بہت خوش ہیں۔ سلائی کے ذریعے ان کی آمدنی میں تھوڑا بہت اضافہ ہوا ہے۔ سونامی کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا:’’ماضی کی طرف کیا دیکھنا، مستقبل کو بہتر بنانے کی سوچیں!‘‘

سن 2004ء میں زبردست تباہی پھیلانے والے سونامی طوفان کے نتیجے میں مختلف ملکوں میں مجموعی طور پر دو لاکھ چھبیس ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ انڈونیشیا میں زلزلے کے باعث سونامی کے نتیجے میں بحر ہند کے اطراف میں قیامت خیز تباہی آئی تھی۔ انڈونیشیا اور جاپان ایسے خطے میں واقع ہیں، جہاں زیر زمین اور زیر آب ارضیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔

رپورٹ: روبینہ سیفورا / گوہر نذیر گیلانی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں