1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سولر امپلس: بین البراعظمی پرواز کا آغاز

Afsar Awan25 مئی 2012

سوئٹزر لینڈ کے تیار کردہ شمسی توانائی سے اڑنے والے ہوائی جہاز ’سولر امپلس‘ نے اپنی بین البر اعظمی پرواز کا آغاز کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/152NI
تصویر: Reuters

فیول کا ایک بھی قطرہ استعمال کیے بغیر سوئس شہر پائرن سے رباط تک کے سفر کے دوران یہ جہاز جمعہ 25 مئی کو میڈرڈ میں کامیابی سے اترا۔

سولر امپلس کے پائلٹ Andre Borschberg نے سوئٹزر لینڈ کے مغربی شہر پائرن کے ایک ایئر فیلڈ سے جمعرات کی صبح عالمی وقت کے مطابق ساڑھے چھ بجے اڑان بھری۔ یہ پرواز دھند کے باعث طے شدہ وقت سے دو گھنٹہ تاخیر سے روانہ ہوئی تھی۔ پائرن سے براستہ میڈرڈ اس جہاز نے مراکش کے دارالحکومت رباط پہنچنا ہے۔ 2500 کلومیٹر طویل اس فاصلے کی کامیاب پرواز کی صورت میں یہ اس جہاز کی دوسری لمبی ترین پرواز ہو گی۔ گزشتہ برس سولر امپلس نے پیرس سے برسلز تک پرواز کی تھی۔

سولر امپلس نے جولائی 2010ء میں پرواز کر کے انسانی تاریخ کے پہلے انسان بردار شمسی جہاز کا اعزاز حاصل کیا تھا
سولر امپلس نے جولائی 2010ء میں پرواز کر کے انسانی تاریخ کے پہلے انسان بردار شمسی جہاز کا اعزاز حاصل کیا تھاتصویر: Reuters

بروشبرگ نے جمعہ کو علی الصبح اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں لینڈ کیا۔ پہلے حصے کی کامیاب تکمیل کے بعد پائلٹ بروشبرگ کا کہنا تھا: ’’فلائٹ ہر لحاظ سے ٹھیک رہی، اس حوالے سے ماہرین موسمیات کی ٹیم کے تعاون کا شکریہ۔ ہر چیز طے شدہ پلان کے مطابق رہی اور یہ زبردست بات ہے۔‘‘ میڈرڈ میں سولر امپلس ٹیکنیکل چیک اپ کے لیے تین دن تک رکے گا، جس کے بعد یہ جہاز وہاں سے رباط کے لیے روانہ ہو جائے گا۔

جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ سولر امپلس کے پروں کا پھیلاؤ 63 میٹر ہے، یعنی ایک ایئربس A340 کے پروں کے پھیلاؤ کے برابر، تاہم اس کا وزن ایک عام شمسی توانائی سے چلنے والی چھوٹی کار سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے پروں پر 12000 سولر سیل نصب ہیں جو بجلی سے چلنے والے چار انجنوں کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔

سولر امپلس کی یہ بین البراعظمی پرواز دراصل اس کی دنیا کے گرد چکر لگانے کی تیاریوں کی ایک طرح سے ریہرسل ہے۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق یہ جہاز 2014ء میں دنیا کے گرد چکر لگائے گا۔ شمسی توانائی سے اڑنے والے کسی انسان بردار جہاز کی دنیا کے گرد یہ پہلی پرواز ہوگی۔

سولر امپلس کے پراجیکٹ سربراہ برٹرینڈ پیکارڈ اور پائلٹ آندرے بورشبرگ کے بقول ان کا ہدف ایسا جہاز تیار کرنا ہے جو دن کے علاوہ رات کے اوقات میں بھی اپنی پرواز جاری رکھ سکے
سولر امپلس کے پراجیکٹ سربراہ برٹرینڈ پیکارڈ اور پائلٹ آندرے بورشبرگ کے بقول ان کا ہدف ایسا جہاز تیار کرنا ہے جو دن کے علاوہ رات کے اوقات میں بھی اپنی پرواز جاری رکھ سکےتصویر: Reuters

سولر امپلس کے پراجیکٹ سربراہ برٹرینڈ پیکارڈ Bertrand Piccard اور پائلٹ آندرے بورشبرگ Andre Borschberg کے بقول ان کا ہدف محض ایک ایسا شمسی توانائی سے اڑنے والا جہاز بنانا نہیں ہے جو دنیا کے گرد چکر لگا سکے، بلکہ ان کا مقصد ایسا جہاز تیار کرنا ہے جو دن کے علاوہ رات کے اوقات میں بھی اپنی پرواز جاری رکھ سکے۔

سورج سے حاصل شدہ توانائی سے اڑنے والے اس جہاز نے جولائی 2010ء میں پرواز کر کے انسانی تاریخ کے پہلے انسان بردار شمسی جہاز کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد 2011ء میں اس جہاز نے ایک اور ریکارڈ بنایا اور وہ تھا کسی انسان بردار شمسی جہاز کی طویل ترین دورانیے کی پرواز، جو 26 گھنٹے، 10 منٹ اور 19 سیکنڈز تک جاری رہی۔ اسی دوران اس جہاز نے 9235 میٹر کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے کسی شمسی جہاز کے بلند ترین سفر کا بھی ریکارڈ قائم کیا۔ یہ بلندی 30،298 فٹ کے برابر بنتی ہے۔

aba/hk (AFP,dpa)