1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوشل میڈیا پیغامات جان بھی لے سکتے ہیں، تین افراد ہلاک

25 مئی 2018

سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ افواہیں اور باعث تشویش پیغامات ہلاکت خیز بھی ہو سکتے ہیں۔ جنوبی بھارت میں اسی طرح کے پیغامات کے نتیجے میں ڈرے ہوئے شہریوں کے گروپوں نے اشتعال میں آ کر کم از کم تین افراد کو ہلاک کر دیا۔

https://p.dw.com/p/2yKWo
تصویر: Imago/xim.gs

بھارتی شہر حیدر آباد سے جمعہ پچیس مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پولیس نے بتایا کہ ان واقعات میں سوشل میڈیا پر یہ بے بنیاد پیغامات شائع کر دیے گئے تھے کہ بھارت کے جنوبی علاقوں میں مبینہ اغوا کاروں کے ایسے گروہ گھوم رہے تھے، جو بچوں کو اغوا کر لیتے ہیں۔

اس پر اپنے بچوں کی سلامتی کے حوالے سے خوف کے شکار مقامی دیہاتیوں کے مختلف گروپوں نے مشتعل ہو کر کم از کم تین افراد کو ہلاک اور کئی دیگر کو زخمی بھی کر دیا۔ لیکن پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ایسے کوئی آثار سرے سے تھے ہی نہیں کہ بچوں کو اغوا کرنے والے کوئی گروہ یا مجرم علاقے میں سرگرم تھے۔

ان واقعات میں سے ایک بھارتی ریاست تیلنگانہ کے ایک گاؤں جیاپلی میں بدھ تئیس مئی کو رات گئے پیش آیا۔ اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے مقامی پولیس افسر رام چندر ریڈی نے جمعہ پچیس مئی کو بتایا کہ ایک قتل کے سلسلے میں چھ دیہاتیوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ان ملزمان نے ایک 33 سالہ آٹو رکشہ ڈرائیور کو اس لیے قتل کر دیا کہ ان کے خیال میں مقتول بچوں کو اغوا کرنے والے کسی گروہ کا رکن تھا۔‘‘

رام چندر ریڈی نے صحافیوں کو بتایا کہ مقتول رکشہ ڈرائیور دراصل ایک قریبی قصبے کا رہنے والا تھا، جو جیاپلی گاؤں ہی میں رہنے والے اپنے بھائی کو ملنے کے لیے وہاں گیا تھا۔ اس قتل سے قبل تیلنگانہ ریاست ہی کے دو قریبی دیہات میں بھی مشتعل افراد نے ایسے ہی حملوں میں منگل بائیس مئی کی رات دو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

اسی طرح بھارت کی مشرقی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو ریاست آندھرا پردیش کے ضلع گُنٹُور کے ایک اسٹیشن پر ایک مشتعل ہجوم نے مار مار کر شدید زخمی کر دیا۔ حملہ آوروں کو غلط فہمی ہو گئی تھی کہ یہ خاتون مشتبہ طور پر بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ خاتون اس وقت شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں زیر علاج ہے۔

آندھرا پردیش میں ریاستی پولیس کے سربراہ ایم مالاکوندایا نے بتایا کہ یہ خاتون چونکہ مقامی نہیں تھی اور مقامی باشندوں کی تلیگو زبان بھی نہیں جانتی تھی، اس لیے حملہ آور دیہاتیوں کی یہ غلط فہمی اور بھی شدید ہو گئی کہ وہ شاید بچوں کے اغوا کرنے والے کسی گروہ کی رکن تھی۔

ان واقعات کے علاوہ آندھرا پردیش کی ہمسایہ ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں پولیس نے بتایا کہ نو ایسے افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے، جنہوں نے گزشتہ منگل کے روز ایک بے قصور شخص کو بچے اغوا کرنے والا سمجھ کر اسے مار مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔

پولیس کے ایک سینئر اہلکار سنیل کمار کے مطابق جنوبی بھارت کے مختلف حصوں سے اگرچہ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اور پیغامات گردش کر رہے تھے کہ وہاں بچوں کو اغوا کرنے والے جرائم پیشہ گروہ سڑکوں پر گھوم رہے ہیں لیکن اس طرح کے اغوا کا کوئی ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔

سنیل کمار نے کہا کہ ان سوشل میڈیا ویڈیو پیغامات کے نتیجے میں مقامی دیہاتی خوف کا شکار ہو گئے تھے اور انہوں نے مبینہ اغوا کاروں کی تلاش کے لیے رضاکاروں پر مشتمل محافظ گروپ بھی تشکیل دے دیے تھے۔

م م / ع ا / اے پی