1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات کے طالبان کا اسلامی عقیدہ کیا ہے؟

رپورٹ: عابد حسین، ادارت: کشور مصطفیٰ7 مئی 2009

دیو بندی یا وہابی مسلک کے تابع دکھائی دینے والی تحریکیں ہی جہادی نظریات کے فروغ میں پیش پیش نظر آ رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/Hkwt
پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کا دور حکومت بھی انتہا پسند عقیدوں کے فروغ میں خاصا اہم ہےتصویر: AP

برصغیر پاک و ہند میں اورنگ زیب عالمگیر سے جتنی بھی مذہب اسلام کے اندر تحریکیں اٹھیں ہیں خواہ وہ تطہیر کی ہوں یا کسی نظام کے حوالے سے، وہ وہابی مکتبِ فکر سے جوڑی جاتی ہیں حالانکہ امام عبد الوہاب کا دور مغل بادشاہ عالمگیر کے بعد کا ہے۔ لیکن اِن تحریکوں کو امام ابن تیمیہ کی تعلیمات کے تابع بھی قرار دیا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مطابق امام حنبل کے نظریات کے ماننے والوں میں سے ایک امام تیمیہ تھے اور اُن کو وہابی اسلام کا ابتدائی بانی تصور کیا جاتا ہے۔

Chaos und Gewalt in Pakistan Besetzte Polizeistation nahe der afghanischen Grenze Musharraf verhängt Ausnahmezustand in Pakistan
طالبان بنیادی طور پر سعودی وہابی مسلکِ اسلام کو مانتے ہیںتصویر: AP

رضا خان بریلوی کی تحریک ہو یا بنگلہ دیش کی فرائضی تحریک، علمائے دیو بند کا سلسلہ ہو یا تبلیغی جماعت، انقلاب ایران کے بعد پاکستان کے اندر اٹھنے والی مختلف عقیدہ مخالف تحریکیں بھی خالصتاً دیو بندی یا وہابی مسلک کے تابع دکھائی دیتی ہیں اور یہی تحریکیں اب جہادی نظریات کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔

پاکستان میں اہلِ سنت والجماعت کے مسلک کے حوالے سے ایک بڑے دائرے میں بات کرتے ہوئے شیعہ عقیدے کے علاوہ بقیہ تمام کو اہلِ سنہ میں شمار کیا جاتا ہے جو کسی اعتبار سے درست نہیں مانا جاتا۔ پاکستان میں بریلوی مسلک اپنے آپ کو خاص طور سے اہل سنت و الجماعت کی علمبردار تصور کرتی ہے۔ صوبہ سرحد اور افغانستان بظاہر ابو حنیفہ کی فقہ کو ماننے ولوں میں ضرور ہیں لیکن ایک عام تصور ہے کہ اِس علاقے کے لوگ اہل سنت والجماعت کے عقیدے سے دور ہیں۔ اگر وہاں مساجد کا سروے کیا جائے تو انتہائی کم تعداد میں بریلوی مسلک کی مساجد ملتی ہیں۔

Pakistan Proteste gegen Musharraf
سابق صدرِ پاکستان پرویز مشرّف کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے اسلامی مدرسوں کے طالبِ علمتصویر: AP

اکو ڑہ خٹک کا دارالعلُوم بھی ترویجِ مسلکِ دیو بند میں خاصا اہم تصور کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں سوویٹ یونین کی فوج کشی اور وہاں کے مذہبی اکابرین کی پاکستانی علاقوں میں مہاجرت بعد میں شدت پسند اسلام کی ترویج میں اہم ہے۔ اُس وقت پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کا دور حکومت بھی اِن انتہاپسند عقیدوں کے فروغ میں خاصا اہم ہے۔ اُن کے دورِ حکومت میں سارے شمال مغربی سرحدی صوبے اور قبائلی علاقوں میں مذہبی مدرسوں کی افزائش ہوئی اور ایک انتہاپسند اسلام کا منظر عام ہوا۔ یہ اسلامی تصور دارالعلُوم اکوڑہ خٹک کے جید عالم دین مولانا عبد الحق کے تصور سے مختلف تھا کیونکہ وہ جمہوری نظام پر یقین رکھتے تھے اور سن اُنیس سو تہتر کے دستور پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک تھے۔

لیکن حالیہ دنوں میں جو سوات اور دوسرے علاقوں میں اسلامی اقدار کو فروغ دیا جا رہا ہے اُس پر حال ہی میں تبلیغی جماعت کے اسلام آ باد منعقدہ اجتماع کہا گیا کہ بندوق کے زور پر نفاذِ اسلام جائز نہیں اور اہل سنت والجماعت کے اکابرین نے بھی صوفی محمد کو تصور اسلام کو مسترد کردیا ہے اور اُن کو ہیرو ماننے سے انکار کردیا۔ سوات میں طالبان نے جس انداز میں پیر سمیع اُللہ کے لاش کی بے حرمتی کی اور قبر کی نشاندہی کے لئے اُن کے عقیدت مندوں کا جس انداز میں قتل کیا گیا وہ کسی طور بھی اسلام کے آفاقی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔