سوات کے بعد جنوبی وزیرستان، آپریشن جاری
23 جون 2009پیر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں فوجی ترجمان میجرجنرل اطہرعباس نے بتایا کہ سوات سے دہشت گردوں کے کیمپوں کا صفایا قریب ہے۔ تاہم انہوں نے آپریشن کی تکمیل کا کوئی نظام الاوقات نہیں دیا۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق پیر کو جنوبی وزیرستان میں مختلف مقامات پر فضائی حملے کئے گئے جن میں کم از کم 15افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ ان میں سے ایک حملہ کنیگروم گاؤں پر کیا گیا جس میں 11 افراد ہلاک ہوئے۔ قبائلی پولیس کے ایک اہلکار امان اللہ وزیر نے بتایا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان کی سرحد پر ایک اور فضائی حملے میں چار افراد ہلاک ہوئے۔
دوسری جانب فوجی ترجمان نے وزیرستان آپریشن میں ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کی۔ انہوں نے اس آپریشن کی تفصیلات بتانے سے بھی گریز کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس کے باضابطہ آغاز سے قبل ہر طرح کی تیاری کی جارہی ہے۔
اطہر عباس کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن بیت اللہ محسود کے گروپ کے خلاف ہے جو ملک میں متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔
فوجی ترجمان نے وزیرداخلہ رحمان ملک کے اس بیان کی بھی تصدیق نہیں کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سوات میں طالبان کے کمانڈر مولانا فضل اللہ زخمی ہو گئے ہیں۔ اطہر عباس نے صرف اتنا کہا کہ ایسا ممکن ہے لیکن ان کے پاس اس بارے میں ٹھوس معلومات نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اپریل میں شروع ہونے والے سوات آپریشن کے دوران تقریبا 16 سو عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں۔
اُدھر جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کی جانب سے مزاحمت جاری ہے اور وہ فوج پر راکٹ حملے کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں صورت حال کشیدہ ہے۔ ان علاقوں کو طالبان اور القاعدہ کے باغیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جو 2001 میں افغانستان میں امریکی حملے کے بعد سرحد پار چلے آئے تھے۔
ان شدت پسندوں کے خلاف پاکستانی فوج کارروائیاں جاری رکھے ہوئے۔ تاہم اس کے نتیجے میں متاثرہ علاقوں کے شہری بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اندرون ملک نقل مکانی کرنے والوں کے لئے ذمہ دار اداے اسپیشل سپورٹ گروپ کے ترجمان کرنل وسیم احمد نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن سے خوفزدہ ہزاروں لوگ نقل مکانی کر گئے ہیں۔