سوات کی حدیقہ بشیر پہلی پاکستانی ’ایشین گرلز ایمبیسیڈر‘
11 اکتوبر 2016تائیوان کے شہر تائی پے میں ایشین گرلز کی سفیر کی تقرری کے حوالے سے منعقد ہونے والا یہ چوتھا مرحلہ تھا۔ پہلے دو مرحلوں میں بھارتی لڑکیوں کو سفیر مقرر کیا گیا تھا جبکہ تیسرے مرحلے میں تائیوان کی ایک لڑکی کو سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم اس سال پاکستان کی حدیقہ بشیر کو ایشیائی لڑکیوں کی سفیر مقرر کر دیا گیا ہے اور انہیں باقاعدہ طور پر ایشین گرلز ایمبیسیڈر کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ یوں وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی بن گئی ہیں۔
دہشت گردی سے متاثرہ علاقے سوات سے تعلق رکھنے والی چودہ سالہ حدیقہ بشیر نویں جماعت کی طالبہ ہیں اور سوات میں لڑکیوں کی کم عمری کے شادی کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔ اس مہم کے دوران اب تک کئی کم سن لڑکیوں کی شادیاں رکوائی جا چکی ہیں۔
ایوارڈ وصول کرنے کے بعد حدیقہ بشیر نے کہا کہ وہ بہت خوش قسمت ہے کہ اسے اس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے:’’اس حوصلہ افزائی کے باعث اب میں مزید محنت اور جدوجہد سے خواتین اور خاص طور پر لڑکیوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھاؤں گی اور ایشیا میں مظلوم خواتین کی حوصلہ افزائی کروں گی۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اپنی اس جدو جہد کے ذریعے وہ ظلم کی شکار خواتین اور لڑکیوں کو انصاف دلانے کی بھرپور کوشش کریں گی۔ حدیقہ بشیر نے یہ اعزاز کوئٹہ اور مردان میں ہلاک ہونے والے وکلاء اور کشمیر میں ہلاک ہونے والوں کے نام کیا ہے ۔
حدیقہ بشیر کے والد افتخار حسین نے بھی مسرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا:’’میرے لیے اور میرے پورے خاندان کے لیے یہ بڑے فخر کی بات ہے۔ میں نے پہلے بھی اپنی بیٹی کو سپورٹ کیا تھا اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔‘‘
حدیقہ بشیر نے کم عمری میں ہی اپنی خدمات اور جدوجہد کے باعث لوگوں میں کافی حد تک شعور پیدا کیا ہے اور خاص طور پر پشتون معاشرے میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے تصور کو ہی بدل دیا ہے۔
سوات سے تعلق رکھنے والی عائشہ خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں آئے روز خواتین اور لڑکیاں ظلم کا شکار ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے:’’حدیقہ بشیر بہت ہی بہادر اور محنتی لڑکی ہے، جس نے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے اس مہم کا آغاز کیا اور اس بات کی بہت خوشی ہے کہ دنیا بھی اس کو تسلیم کر رہی ہے۔‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ حدیقہ ایشیائی لڑکیوں کی سفیر مقرر ہونے پر مزید محنت اور لگن سے اپنے مشن کو آگے بڑھائے گی۔
لوگ حدیقہ بشیر کو اُن کی جدوجہد کے باعث اکثر ’دوسری ملالہ‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پشتون معاشرے اور خاص طور پر سوات کی بچیوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھائیں اور معاشرے کی سوچ کو بدل دیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بچیوں کی صحیح سمت کی جانب رہنمائی کی جائے۔