1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات کا سفید محل، ایک پرکشش سیاحتی منزل

عدنان باچا، سوات30 جولائی 2015

پاکستان کی وادی سوات کے سیاحتی مقام مرغزار میں منفرد فن تعمیر کا عکاس تاریخی ’سفید محل‘ ماضی کی ریاستِ سوات کے ترقی یافتہ ہونے کا ایک اہم ثبوت بھی ہے اور اپنی خوبصورتی کے باعث سیاحوں میں بھی بہت مقبول ہے۔

https://p.dw.com/p/1G7P0
سفید محل کی تعمیر 1941ء میں مکمل ہوئی تھیتصویر: DW/A. Bacha

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑوں کے دامن میں واقع پرفضا مقام مرغزار اپنے قدرتی حسن اور معتدل موسم کی بدولت اگر خصوصی اہمیت کا حامل ہے تو دوسری جانب یہاں پر قائم ریاستی دور کا سفید محل بھی یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ جدید ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودو (بادشاہ صاحب) نے سفید محل کی تعمیر 1941ء میں مکمل کروائی اور اس کے لیے سنگ مرمر راجستھان سے منگوایا گیا تھا۔ سفید محل کو پہلے موتی محل کہا جاتا تھا اور اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا ماربل وہی ہے، جو آگرہ کے مشہور زمانہ تاج محل میں استعمال ہوا تھا۔

سفید محل کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سوات کے شاہی خاندان کے نمائندے میاں گل شہریار امیر زیب باچا کا کہنا تھا کہ قریب 1930ء میں جب بادشاہ صاحب راجستھان گئے، تو وہ وہاں کا سنگ مرمر دیکھ کر اس کے دلدادہ ہوگئے تھے۔ ’’راجستھان اس وقت ہندوستان میں معدنیات کی صنعت کا ایک بڑا مرکز تھا۔ بادشاہ صاحب نے واپس آنےکے بعد اس سفید محل کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور راجستھان سے ماربل منگوایا گیا۔ یوں 1931ء میں اس سفید محل کی تعمیر شروع ہو ئی تھی۔‘‘

مرغزار پہاڑوں کے دامن میں واقع سوات کی ایک بہت خوبصورت وادی ہے۔ انہی پہاڑوں کے دامن میں تعمیر کردہ سفید محل تقریباً تین کنال رقبے پر پھیلا ہوا ہے جبکہ اس عمارت کی بلندی 35 فٹ ہے۔ اس عمارت کے تین حصے ہیں: محل کا مرکزی حصہ بادشاہ صاحب کے لیے مخصوص تھا، دوسرا حصہ وی آئی پی شخصیات کے لیے اور تیسرا حصہ اس دور کے حکمران انگریزوں اور خواتین کے لیے مخصوص تھا۔

سیدو شریف سے تعلق رکھنے والے دلفروز باچا نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوات کے ریاستی دور میں سفید محل خوبصورت ترین عمارتوں میں شمار ہوتا تھا۔ ’’ریاستی دور حکومت میں جو اعلٰی شخصیات یہاں قیام کر چکی ہیں، ان میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ، پاکستانی صدر ایوب خان اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔ اسی طرح کئی اعلٰی انگریز افسران بھی چھٹیاں منانے کے لیے سفید محل کا رخ کرتے تھے جبکہ غیر ملکی سیاح بھی خاص طور پر اس محل کو دیکھنے مرغزار آتے تھے۔‘‘

Pakistan weiße Palast in Swat-Tal
مرغزار کے سفید محل کے وسیع لان کا ایک منظرتصویر: DW/A. Bacha

سفید محل کی دیواریں اور فرش راجستھانی ماربل سے بنائے گئے ہیں اور اس کا طرز تعمیر بھی بہت عمدہ ہے۔ اس محل میں ایک ڈرائنگ روم، ایک ڈائننگ ہال، ایک میٹنگ روم اور ایک بادشاہ صاحب کا اپنا کمرہ ہے۔ محل کے احاطے میں بھی متعدد کمرے ہیں۔ جب بادشاہ صاحب گرمیوں میں مرغزار کا رخ کرتے تو ان کے اہل خانہ کے علاوہ وزیر، مشیر اور خوانین بھی ان کے ہمراہ ہوتے تھے، جو اسی محل کے مختلف کمروں میں قیام کرتے تھے۔ سفید محل میں ایک وسیع لان بھی موجود ہے، جہاں بیٹھنے کے لیے ماربل ہی سے بینچ بنائے گئے ہیں جبکہ احاطے میں ایک مسجد بھی ہے۔

گرمیوں کے موسم میں جب بادشاہ صاحب سفید محل آتے تو جملہ ریاستی امور یہیں طے ہوتے تھے۔ اسی سفید محل کی بدولت مرغزار وادی سوات کا گرمائی دارالحکومت ٹھہرا تھا اور یہیں سے شاہی فرمان جاری ہوا کرتے تھے۔

1972/73ء میں سفید محل کو با قاعدہ طور پر ایک ہوٹل کا درجہ دے دیا گیا۔ اب یہی محل سیاحتی قیام کے لیے سیاحوں کی پسندیدہ منزل ہے۔ بادشاہ صاحب کا ذاتی کمرہ اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ پشاور سے یہاں آئے ہوئے محمد اکبر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے مرغزار کی وادی کا بہت نام سن رکھا تھا۔ ’’یہاں آ کر بہت اچھا لگا۔ سفید محل اور مرغزار کی خوبصورتی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ یہ ایک بہت ہی پرسکون علاقہ ہے۔ جس طرح یہ محل بنایا گیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔‘‘

آج کل جو سیاح وکٹورین طرز تعمیر والے اس محل کا رخ کرتے ہیں، انہیں یہی گلہ رہتا ہے کہ سوات میں مرغزار اور اس محل تک آنے والے سڑک بہت خستہ حال ہے۔ اگر وہاں تک آرام دہ عوامی آمدو رفت کے امکانات بہتر بنا دیے جائیں، تو سیاحت کو ترقی دینے میں آسانی ہو گی اور اقتصادی طور پر اس کا فائدہ مرغزار کے علاوہ سوات کے پورے علاقے کو پہنچے گا۔