1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات میں سکولوں کے تالے کھل گئے

فرید اللہ خان، پشاور23 فروری 2009

سرحدحکومت اور تحریک نفاذ شریعت کے مابین امن معاہدے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں سوات میں تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں

https://p.dw.com/p/GznB
سوات میں طالبان کے ہاتھوں تباہ ہونے والے ایک سکول کی عمارتتصویر: picture-alliance / dpa

تاہم بالائی علاقوں میں برف باری اور بعض علاقوں میں سکولوں کی عمارتیں تباہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر سکول بدستو ر بند ہیں۔

سوات طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ نے لڑکیوں کی تعلیم پر لگائی گئی پابندی جزوی طورپر واپس لینے کااعلان کیا ہے۔ سوات کے ضلعی رابطہ آفسر خوشحال خان کا کہنا ہے کہ ’’حکومت تعلیمی اداروں کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔ قیام امن کے لئے تمام فریقین کو ساتھ لے کر چلیں گے اس ضمن میں کوشش جاری ہیں دن رات اس پرکام کررہے ہیں امن کے ساتھ ہی ہم آگے بڑھیں گے ضلعی انتظامیہ پر حکومت نے ایک بڑا اعتماد کیا ہے۔ سوات کے سکولوں میں سب سے پہلے عوام کا اعتماد بحال کرناہے یہ ترجیحات میں ہیں پھر انفراسٹرکچر پر توجہ دیں گے جو سکول تباہ ہوئے ہیں ان کو بحال کریں گے ابتدائی طورپر ٹینٹ سکول بنائیں گے اوراس سلسلے کو پھر آگے بڑ ھائیں گے۔‘‘

سوات میں قیام امن کی غرض سے پڑاؤ ڈالنے والے کالعدم تحریک نفاذ شریعت کے سربراہ مولاناصوفی محمد نے طالبان سے غیر مسلح ہونے اور حکومت سے فوج کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’سوات میں مرحلہ وار تبدیلیاں آئیں گی۔ طالبان انتظامیہ کے کاموں میں مداخلت نہ کریں۔ مسلح گشت ختم کریں اور اسلحہ ڈال کر سکول اور مساجد خالی کرکے کہیں اور منتقل ہوجائیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ حکومت طالبان کے گرفتار ساتھیوں کو رہا کرے۔ دوسری جانب طالبان نے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لئے اغواء کئے جانے والے ضلعی رابطہ آفیسر خوشحال خان کوان کے ڈرائیور اورپانچ محافظوں سمیت اغواء کرنے پرموقف اختیار کیا کہ معاہدے کے بعد حکومت نے ان کے دوساتھیوں کو گرفتار کیا جب کہ ضلع دیر میں ایک کوقتل کیاگیا جس کے ردعمل میں ڈی سی او کواغواء کیاگیا۔ طالبان کے اس اقدام پر عوام کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے تاہم سرحد حکومت کے ترجمان اور اطلاعات کے صوبائی وزیر میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ سوات میں مرحلہ وار امن قائم ہوگا ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ آج معاہدہ ہوا اورکل سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایک مسئلہ 15-14سال سے چلا آرہاہے اور ڈیڑھ سال سے سوات میں خونریز ی ہورہی ہے ایسے حالات پر چند دن میں قابوپانا مشکل ہوگا۔‘‘

ا ن کا کہنا ہے: ’’ کچھ ہاتھ ایسے بھی ہیں جو امن کے قیام کی ان کوششوں کو سبوتاژ کررہے ہیں آج اے این پی کے دو کارکنوں کواٹھایا گیا یہ ایسی قوتیں ہیں جو امن کی دشمن ہیں۔ اے این پی جو امن کے قیام کے لئے کوشش کررہی ہے اس لیے یہ لوگ ہمیں بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں ‘‘۔

صوبائی حکومت ایک طرف امن کے قیام کے لئے معاہدوں میں مصروف ہے جبکہ دوسری جانب سرحد میں عسکریت پسندوں کامقابلہ کرنے کے لئے 30 ہزار شہریوں میں اسلحہ تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کو اس طرح کے فیصلوں کانوٹس لینا چاہیے۔ سرحد سمیت قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں بھی تیزی لائی گئی ہے۔ خیبرایجنسی میں کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے ٹھکانوں پر گن شپ ہیلی کاپٹر وں سے شیلنگ کی گئی جس سے دو افراد ہلاک اورآٹھ زخمی ہوئے جب کہ باجوڑ ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کے دوران چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ سیکورٹی فورسز اور حکومت کی جانب سے طالبان کے خلاف کاروائیوں میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے لیکن طالبان بھی اپنی صف بندیوں میں مصروف ہیں۔ شمالی اورجنوبی وزیرستان میں مصروف عمل طالبان کے تین گروپوں نے اتحاد المجاہدین کے نام سے متحدہ گروپ کا اعلان کیا ہے اس گروپ میں بیت اللہ محسود، حافظ گل بہادر اور احمد زئی وزیر گروپ نے اتحاد کرلیا ہے۔ انہوں نے اپنے اعلامیہ میں افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کواپنا امیر جب کہ عرب نژاد اسامہ بن لادن کوہیرو قرار دیا ہے تاہم تحریک طالبان کے پلیٹ فارم پر متحد ہونے والے سوات باجوڑ مومند ایجنسی اور دیگر علاقوں کے طالبان کواتحاد کے لئے بلائے گئے اس اجلاس میں مدعو نہیں کیاگیا۔