سوائن فلو وائرس کا درجہ چار سے بڑھا کر پانچ
30 اپریل 2009میکسیکو میں سوائن فلو کی وجہ سے بڑھتی ہوئی اموات کے سبب ملک کے صدر فیلیپے کالڈیرون Felipe Calderon نے اپنے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پانچ دن تک اپنے گھروں تک ہی محدود رہیں۔ جبکہ اس دوران میکسیکو کی معیشت جزوی طور پر معطل رہے گی۔
عالمی ادارہ صحت نے سوائن فلو کوخطرے کے حساب سے نمبر چار سے بڑھا کر پانچویں درجے کی متعدی بیماری قرار دے دیا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی عالمگیر وبا کی شکل اختیار کرنے کے حوالے سے بنائی گئی چھ درجاتی ٹیبل پر کسی بیماری کے پانچویں نمبر پر آنے کا مطلب ہے کہ وہ نہ صرف انسان سے انسان کو لگ سکتی ہے بلکہ اسکی کسی ایک خطے کے دو یا دو سے زیادہ ممالک میں موجودگی کی تصدیق ہوچکی ہے۔ درجہ نمبر پانچ کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس بیماری کے عالمگیر وبائی شکل اختیار کرنے کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔گزشتہ پچیس برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے کسی بیماری کو درجہ پانچ کی خطرناک بیماری قرار دیا ہے۔
جنیوا میں اس حوالے سے ہونے والے عالمی ادارہ صحت کے اجلاس میں ادارے کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مارگریٹ چن نے کہا کہ H1N1 انفلوئنزا وائرس کے پھیلاؤ کو بہت ہی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے پورے دنیا میں پھیلنے کے خطرات موجود ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل نے اس بیماری سے بچاؤ اور علاج کے لئے دنیا کے تمام ممالک کو آگے بڑھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی یکجہتی کے لئے ایک اچھا موقع ہے، کیونکہ WHO تمام ممالک سے توقع کررہی ہے کہ وہ اس بیماری کے علاج اور بچاؤ کے لئے آگے بڑھیں اور ایسی کوششیں کریں جس سے تمام ممالک اور ان کے عوام مستفید ہوسکیں۔ کیونکہ اگر اس بیماری نے عالمگیر وبائی شکل اختیار کرلی تو پوری انسانیت کو اس سے خطرہ ہوگا۔
دوسری طرف ہالینڈ میں بھی ایک تین سالہ بچے کے سوائن فلو سے متاثر ہونے کی تصدیق کردی گئ ہے۔ جو کہ ہالینڈ میں سوائن فلو کا پہلا کنفرم کیس ہے۔ ادھرکروشیا کے وزیر صحت ڈارکو میلانو ِوچ نے بھی اپنے ملک میں سوائن فلو سے متاثر ہونے والے پہلے کیس کی تصدیق کی ہے جو کہ ایک خاتون طالبہ ہے جو میکسیکو کے مطالعاتی دورے سے واپس آئی ہے۔
براعظم ایشیا میں اب تک سوائن فلو سے متاثرہ کسی کیس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے، مگر اس سلسلے میں تقریبا تمام ایشیائی ممالک نے احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک آسیان کے وزراء صحت کا دو روزہ اجلاس منعقد ہورہا ہے جس میں اس خطرے سے بچاؤ اور اس سے نمٹنے کے لئے اقدامات پر غور کیا جائے گا۔