سندھ میں شراب کی تمام دکانوں کو بند کرنے کا حکم
27 اکتوبر 2016سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی انتظامیہ کو حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ شراب فروخت کرنی والی تمام دکانوں کے لائسنس منسوخ کر دیے جائیں۔ پاکستانی قانون کے مطابق مسلم شہریوں کو شراب کی فروخت کی ممانعت ہے، تاہم غیرمسلم شہریوں کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ تاہم اس عدالتی حکم نامے کے بعد اب غیرمسلم شہریوں کے لیے شراب کی خرید کا یہ قانونی راستہ بند ہو گیا ہے۔
پاکستانی انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق لائسنس کے بغیر شراب کی دکانوں کے خلاف پیٹشن دائر کرنے والے عرفان علی کا کہنا ہے کہ ان کی رہائش گاہ کے قریب واقع اسکول کے پاس ایک شراب کی دکان کافی عرصے سے کھلی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شراب تک سب کے لیے رسائی بہت آسان ہے، جس کی وجہ سے کچھ نابالغ افراد کے لیے بھی شراب خریدنا بہت آسان ہے۔ اسی کیس میں پیٹیشن درج کرنے والے دوسرے شخص شہریار ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ وہ کراچی میں ایسی پندرہ دکانوں کے بارے میں آگاہ ہیں جو غیر قانونی طور پر شراب فروخت کرتی ہیں۔
پاکستان میں مسلمانوں کو شراب نوشی ممنوع ہے لیکن ہندو اور مسیحی افراد شراب پی سکتے ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق پاکستان میں ناقدین کی رائے میں لائسنس رکھنے والی دکانیں بعض اوقات مسلمانوں کو بھی شراب فروخت کرتی ہیں۔ صوبہء سندھ کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل غلام مصطفیٰ نے روئٹرز کو بتایا، ’’سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پورے صوبے میں شراب کی دکانوں کو بند کرنے کا حکم دے دیا ہے کیوں کہ یہ سن 1979 کے حدود آرڈیننس کے آرٹیکل 17 اور 19 کے خلاف ہے۔‘‘
فی الحال یہ معلوم نہیں ہے کہ اب پاکستان میں غیرمسلم اقلیتیں کس طرح شراب خرید سکتی ہیں؟
سابق فوجی آمر ضیاالحق کے دور میں بننے والے حدود آرڈیننس کے تحت ملک بھر میں شراب کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی گئی تھی جب کہ غیر مسلم شہریوں کو بھی فقط مذہبی تہواروں کے موقع پر شراب خریدنے کی اجازت تھی۔
روئٹرز کے مطابق سندھ میں 120 شراب کی دکانیں ہیں، 21 دکانیں ہول سیل کی ہیں جن میں سے 20 کام نہیں کر رہیں۔