1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ میں اصل مسئلہ گورننس اور سیاسی مداخلت

رفعت سعید، کراچی25 جولائی 2016

پیپلز پارٹی کی قیادت نے دبئی میں ہونے والے اجلاس میں صوبائی کابینہ میں رد و بدل کا اعلان کر کے غیر یقینی کی فضا قائم کردی ہے۔ قدرے نوجوان مراد علی شاہ کا نام نئے وزیر اعلیٰ کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JVVh
Pakistan Wechsel an der Spitze der Landesregierung von Sindh
تصویر: Landesregierung/Sindh, Pakistan

تجزیہ کاروں کے مطابق جب تک معاملات میں فریال تالپور کی مداخلت ختم نہیں ہوتی اس اہم تبدیلی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

گزشتہ ہفتے تک سندھ میں رینجرز کے قیام اور خصوصی اختیارات میں توسیع کا معاملہ وفاق اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے درمیان تناؤ کا باعث بنا ہوا تھا اور اسی مقصد کے لئے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ پارٹی قیادت سے مشاورت کے لئے دبئی گئے تھے۔ چند حلقے عندیہ دے رہے تھے کہ پارٹی اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اہم فیصلے کر سکتے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ پر امید تھے کہ رینجرز اختیارات کا معاملہ افہام و تفہیم سے طے کر لیا جائے گا۔ دوسری جانب جس صورت حال کا سامنا قائم علی شاہ کو اجلاس کے دوران کرنا پڑا وہ نہ صرف ان کے بلکہ دیگر بہت سے افراد کے لئے غیر متوقع تھی۔

بلاول بھٹو نے وزیر اعلیٰ سندھ کی تبدیلی کا اعلان کیا اور کابینہ کے بعض اراکین کو بھی فارغ کرنے کے لئے گرین سگنل دیا ہے لیکن پارٹی پر آصف علی زرداری کی گرفت مضبوط ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ مراد علی شاہ نئے وزیر اعلیٰ کے لئے مضبوط ترین امید وار ہیں۔ یہ فیصلہ گزشتہ برس ہونا تھا اور اسی منصب کے لئے مراد علی شاہ نے اپنے برطانیہ کی شہریت کو بھی چھوڑ دیا تھا مگر اُس وقت قائم علی شاہ کی تبدیلی کا فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔

Pakistan Bilawal Bhutto Zardari
نئے وزیر اعلیٰ سندھ کے اور کابینہ کے وزراء کے ناموں کا اعلان بلاول بھٹو آئندہ چند روز میں وطن واپسی کے بعد پارٹی کے پارلمانی اجلاس میں کریں گےتصویر: picture-alliance/dpa

سابق وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ کے بیٹے مراد علی شاہ انجینئر ہیں اور امریکا سے بھی تعلیم یافتہ ہونے کےساتھ ساتھ کئی سرکاری اداروں میں ملازمت بھی کر چکے ہیں۔ سابق اور موجودہ سندھ حکومت میں وزارت خزانہ کا اہم قلمدان ان کے پاس ہے اور انہیں بھی قائم علی شاہ کی طرح سید ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کے مضبوط شاہ گروپ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

نئے وزیر اعلیٰ سندھ کے اور کابینہ کے وزراء کے ناموں کا اعلان بلاول بھٹو آئندہ چند روز میں وطن واپسی کے بعد پارٹی کے پارلمانی اجلاس میں کریں گے مگر تجزیہ کاروں کے مطابق میر ہزار خان بجرانی بھی سندھ کی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں کیونکہ انہیں مراد علی شاہ کے مقابلے میں مقتدر قوتوں کی زیادہ حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سید امین حسین کہتے ہیں کہ اگر واقعی قائم علی شاہ کو تبدیل کیا جاتا ہے تو میر ہزار خان بجرانی مضبوط امیدوار ہوسکتے ہیں البتہ وزیر داخلہ سہیل انور سیال اور بلدیات کے وزیر جام خان شورو کی چھٹی تقریباﹰ یقینی ہے، ان دونوں کی جگہ پارٹی کے سینئر اراکین نثار کھوڑو اور اسپیکر سندھ اسمبلی کو اہم ذمہ داریاں دی جا سکتی ہیں مگر اصل صورت حال آئندہ دو سے تین روز میں واضح ہوگی۔

قائم علی شاہ نے دبئی سے وطن واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تبدیلی کے فیصلے کو قبول کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ نئے وزیر اعلیٰ کا نام لینا انکے کے لئے مناسب نہیں البتہ وہ پارٹی کے ہر فیصلے کو خوش دلی سے قبول کریں گے۔ ان کا آٹھ سالہ دور کیسا رہا اس کا فیصلہ عوام کریں گے جبکہ مراد علی شاہ نے بتایا کہ رینجرز کے قیام اور اختیارات کا معاملہ وزیر اعلیٰ کی تبدیلیوں سے قبل ہی طے کر لیا جائے گا۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق سندھ میں اصل مسئلہ گورننس کا ہے، جس میں صرف وزیر اعلیٰ یا چند وزراء کی تبدیلی سے بہتری ممکن نہیں بلکہ اس مقصد کے لئے سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی سندھ حکومت کے معاملات میں مداخلت ختم ہونا ضروری ہے بلکہ مراد علی شاہ کے وزیر اعلیٰ مقرر ہونے سے پیپلز پارٹی کے اندرونی دھڑوں میں جاری رسہ کشی مزید بڑھ جائے گی کیونکہ سندھ کابینہ کے کئی اراکین خود کو وزارت اعلیٰ کا حق دار سمجھتے ہیں۔