1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ میں اسٹریٹ چلڈرن سے متعلق قانون سازی پر اظہار اطمینان

18 اپریل 2018

پاکستانی صوبہ سندھ کی اسمبلی میں منگل سترہ اپریل کو سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچوں کو بلوغت تک محفوظ شیلٹر ہوم مہیا کرنے اور ان کی بہبود سے متعلق ایک مسودہ قانون منظور کر لیا گیا، جسے ایک احسن اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2wGAI
Pakistan Karatschi Straßenschule
تصویر: DW/A. Saleem

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 12 سے لے کر 15 لاکھ سے زائد تک بچے زیادہ تر سڑکوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان اسڑیٹ چلڈرن کی دیکھ بھال اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم آزاد فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان میں سڑکوں پر رہنے والے ان بچوں میں سے 94 فیصد لڑکے اور چھ فیصد لڑکیاں ہیں۔

متعدد غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق ایسے لاکھوں بچوں کی فلاح و بہبود سے متعلق حکومت کی جانب سےمؤثر اقدامات کی کمی کو  ماضی میں شدت سے محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم سندھ اسمبلی میں پیش کیے گئے قانونی بل، اسٹریٹ چلڈرن شیلٹر ہوم بل 2018ء  کی منظوری کے بعد کم از کم صوبہ سندھ میں ایسے بچوں  کے حالات زندگی میں بہتری کی امید پیدا ہو گئی ہے۔

Pakistan Straßenkinder
تصویر: DW/U. Fatima

پاکستان میں دو کروڑ بچوں کے اسٹریٹ چلڈرن بننے کا خطرہ

اس بل کے مطابق حکومت ’ہمارا گھر‘ نامی شیلٹر ہومز کی تعمیر دو مرحلوں میں مکمل کرے گی۔ پہلا مرحلہ پانچ سالوں پر محیط ہو گا، جس کے تحت کراچی اور حیدر آباد میں ایسے بے گھر بچوں کے لیے شیلٹر ہوم تعمیر کیے جائیں گے۔ اگلے مرحلے میں سندھ کے باقی اضلاع میں ایسے گھروں کی تعمیر کی جائے گی۔

یہ شیلٹر ہومز عوامی اور نجی دونوں شعبوں کی شراکت داری سے چلائے جائیں گے اور وہاں 18 برس کی عمر کو پہنچنے تک ایسے بچے نہ صرف میٹرک تک کی تعلیم حاصل کر سکیں گے بلکہ انہیں کھیل اور تفریح کی سہولیات بھی مہیا کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ انہیں پیشہ ورانہ تربیت بھی دی جائے گی۔ ایسے گھروں میں بچوں کی تعلیم، صحت اور بہبود کی ذمہ داری حکومت کے سپرد ہو گی۔

پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس بل کی منظوری کو ایک قابل ستائش اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ٹوئٹر پر ایک صارف نے اس بل کو اسمبلی میں متعارف کرانے والی تحریک انصاف کی خاتون رکن ڈاکٹر سیما ضیا کو خاص طور پر مبارک باد کا مستحق قرار دیا۔

اسی طرح ایک اور صارف نے اس حوالے سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو تحفظ فراہم کرنے والے پیشہ ور افراد کو ساتھ ملاتے ہوئے اس باقاعدہ نظام وضع کیا جائے۔

سندھ میں چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور یہ بل وہیں منظور ہوا ہے، اس پر پیپلز پارٹی کے ایک حامی نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ’’اسی لیے تو کہتے ہیں، زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے۔ ‘‘