1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سن دو ہزار پندرہ: پاکستان میں کیا کچھ نہ ہو سکا

تنویر شہزاد، لاہور31 دسمبر 2015

پاکستان میں 2015ء میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آنے کے بعد ملک میں بہت سے شعبوں میں بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن ان ساری کامیابیوں کے باوجود کئی امور ایسے بھی ہیں، جن میں کوئی زیادہ پیش رفت دیکھنے میں نہ آئی۔

https://p.dw.com/p/1HWSa
Pakistan Wahlen
2015ء میں الیکشن کمیشن کی طرف سے کروائے جانے والے انتخابات کی شفافیت پر بھی بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیاتصویر: DW/T. Shahzad

2015ء میں چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل کر لیا گیا لیکن بدقسمتی سے مطالبوں اور مظاہروں کے باوجود بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق انتظامی، سیاسی اور مالی اختیارات نہ مل سکے۔

2015ء میں الیکشن کمیشن کی طرف سے کروائے جانے والے انتخابات کی شفافیت پر بھی بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن 2015ء میں ہونے والے تمام انتخابات میں انتخابی ضابطہٴ اخلاق پر عمل درآمد کروانے اور خاص طور پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے انتخابی اخراجات والی شق پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ پاکستان میں مجوزہ انتخابی اصلاحات کے معاملے پر بھی کوئی بہت بڑی پیش رفت نہ ہو سکی۔

نیشنل ایکشن پلان کے کئی نکات عملدرآمد کے منتظر

پاکستان میں دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ نہ ہو سکا۔ سال کے آخری دنوں میں مردان میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات سے یہ تاثر ملا کہ دہشت گردوں کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں کی جا سکی ہے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت جو 20 نکات طے کیے گئے، ان میں سے بھی کئی نکات پر 2015ء میں بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔

Pakistan Anschlag in Karachi
کراچی آپریشن 2015ء میں جاری تو رہا لیکن اس سال کے آخر میں اس آپریشن کے حوالے سے رینجرز اور سیاسی صوبائی حکومت کے مابین موجود ہم آہنگی برقرار نہ رہ سکیتصویر: picture-alliance/dpa/EPA/S. Akber

بلند بانگ دعوں کے ساتھ شروع کیا جانے والا کراچی آپریشن 2015ء میں جاری تو رہا لیکن اس سال کے آخر میں اس آپریشن کے حوالے سے رینجرز اور سیاسی صوبائی حکومت کے مابین موجود ہم آہنگی برقرار نہ رہ سکی اور رینجرز کو کرپشن کے خاتمے کے نام پر کیے جانے والے اپنے اقدامات پر سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

ملٹری اور فوج ایک صفحے پر؟

ملک میں موجود سیاسی حکومت کو سیاسی استحکام 2015ء میں بھی میسر نہ آ سکا۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کو کئی اہم معاملات پر اعتماد میں نہ لیا جا سکا۔ کئی اہم فیصلے پارلیمنٹ یا کابینہ کی بجائے ایپکس کمیٹیوں کے ذریعے کیے جاتے رہے۔ پاکستان کی جمہوری حکومت اور پاک فوج کے ایک صفحے پر ہونے کے دعوے تو بہت کیے گئے لیکن سول ملٹری تناؤ کو کئی مواقع پر پوشیدہ نہ رکھا جا سکا۔ کورکمانڈر کانفرنس کے بعد گوورننس کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کیا جانے والا بیان بھی اس کی ایک مثال ہے۔

جمہوری حکومت نے توانائی بحران میں کمی لانے کے لیے تو متعدد اقدامات کیے لیکن وہ ملک سے لوڈ شیڈنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے میں اس سال بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کشکول توڑنے کا اپنا وعدہ 2015ء میں بھی پورا نہ کر سکی اور حکومت کی طرف سے لیے جانے والے قرضوں میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سپریم کورٹ میں نیب کی طرف سے پیش کی جانے والی میگا سکینڈلز کی فہرست پر بھی نتیجہ خیز تحقیقات کا بڑا سلسلہ اس سال دیکھنے میں نہ آیا۔

Bomenanschlag Mardan Pakistan
سال کے آخری دنوں میں مردان میں دہشت گردی کی واردات سے یہ تاثر ملا کہ دہشت گردوں کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں کی جا سکیتصویر: Walayat Khan/AFP/Getty Images

اقتصادی شعبہ: اربوں کا نقصان اور پچھتاوے

معاشی میدان میں ملکی برامدات میں خاطر خواہ اضافی نہ کیا جا سکا۔ ریونیو جنریشن کے ٹارگٹ بھی پورے نہ ہو سکے۔ ٹیکس اور جی ڈی پی شرح میں نمایاں اضافہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔ معاشی اصلاحات کا ایجنڈا بھی تیزی سے آگے نہ بڑھایا جا سکا۔ قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والے سرکاری اداروں کی مجوزہ نجکاری کا عمل بھی سرے نہ چڑھ سکا۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کے مسئلے پرحکومت اور تاجروں میں اختلافات طے نہ ہو سکے۔

بے نظیر بھٹو اور عمران فاروق کے قاتلوں کو سزا نہ مل سکی، جنرل پرویز مشرف کے خلاف دائر کیا جانے والا سنگین غداری کا کیس بھی تکمیل کے مراحل تک نہ پہنچ سکا۔ سانحہٴ ماڈل ٹاون لاہور اور سانحہٴ بلدیہ ٹاون کراچی کے ملزمان کو 2015ء میں بھی سزا نہ مل سکی۔

پاک انڈیا کرکٹ سیریز 2015ء میں نہ ہو سکی، کئی کھیلوں کو 2015ء میں بھی بھرپور حکومتی سرپرستی میسر نہ آ سکی۔ ماضی میں قائم کیے جانے والے بہت سے تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹیں 2015ء میں بھی سرکاری طور پر منظر عام پر نہ آ سکیں۔

Symbolbild- Proteste in Pakistan Elektrizitätsknappheit
توانائی بحران میں کمی لانے کے متعدد حکومتی اقدامات کے باوجود ملک سے لوڈ شیڈنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے میں اس سال بھی کامیاب نہ ہو سکیتصویر: Getty Images

نئے سال کے لیے مثبت توقعات

روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار خالد محمود رسول کہتے ہیں کہ اس فہرست کے باوجود 2015ء کو پاکستان کے لیے کوئی برا سال نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے بقول 2015ء پاکستان کے لیے ایک ملا جلا سال تھا لیکن اس سال کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کے بقول پاکستان میں 2015ء میں جن امور پر اچھی پیش رفت دیکھنے میں آئی، ان کی فہرست بھی خاصی لمبی ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں 2015ء میں نہ ہونے والے کئی کام ایسے ہیں، جن پر پیش رفت جاری ہے اور توقع یہی ہے کہ پاکستان 2016ء میں مزید اعتماد اور امن و سکون کے ساتھ ترقی کی طرف بڑھ سکے گا۔