سفری پابندیوں کا نیا حکم جاری کرنے پر غور کر رہا ہوں، ٹرمپ
11 فروری 2017ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ مہاجرین اور بعض مسلمان اکثریتی آبادی والے ملکوں کے شہریوں کی امریکا آمد پابندی کا ایک نیا صدارتی حکم جاری کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ منصب صدارت سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کے جاری کردہ ایک حکم نامے کو امریکی عدالت نے معطل کر دیا تھا اور یہ معطلی دو اعلیٰ اعدالتوں نے برقرار رکھتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کی اپیلیں خارج کر دی تھیں۔
ان اپیلوں کے اخراج پر ڈونلڈ ٹرمپ کی ناپسندیدگی بھی سامنے آ چکی ہے۔ ٹرمپ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ عدالتی جنگ سپریم کورٹ میں جیت کر رہیں گے۔ انہوں نے اپیلوں کے اخراج کو ’قانون کے تحت وقت کا ضیاع‘ قرار دیا۔ ٹرمپ کے عدالتی ججوں کے بارے میں دیے گئے بیانات پر اُنہی کی جانب سے سپریم کورٹ کے لیے نامزد جج نیل گورسچ نے بھی نامناسب خیال کرتے ہوئے انہیں حوصلہ شکن قرار دیا ہے۔
سان فرانسسکو کے اپیل کورٹ سے حکومتی اپیل خارج ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اصرار کیا کہ امریکی سکیورٹی کو مضبوط تر کرنے کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے یہ بات جاپانی وزیراعظم شینزو آبے کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اُن کے ملک کو شدید سکیورٹی خطرات لاحق ہیں اور اس ضمن میں سلامتی بہتر کرنے کے اقدامات سبک رفتار کے ساتھ سامنے لائے جائیں گے۔
ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ایسے لوگوں کو امریکا داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جو یہاں پہنچ کر اِس معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوں۔ امریکی صدر کے مطابق صرف وہ لوگ امریکا آ سکیں گے جو اس ملک کے معاشرے اور لوگوں کے ساتھ محبت کے جذبات رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے جس ایگزیکٹو آرڈر کے تحت مہاجرین کو 120 ایام کے لیے امریکا داخل ہونے سے روک دیا تھا، اسی میں ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں پر نوے روز کے لیے امریکی دروازے بند کر دیے تھے۔ اس حکم کو ایک امریکی جج نے معطل کر دیا تھا اور بعد میں دو اعلیٰ عدالتوں نے یہ معطلی برقرار رکھی۔ سان فراسسکو کی اپیل کورٹ نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ حکومتی وکیل مضبوط شواہد پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔