سعودیہ، ایران تناؤ، کیری ریاض پہنچ گئے
23 جنوری 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جان کیری اپنے سعودی ہم منصب عادل الجبیر اور چھ رکنی خلیج تعاون کونسل کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ایک مشترکہ میٹنگ میں شریک ہوئے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ شامی اپوزیشن کے حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔ اقوام متحدہ کی سربراہی میں شامی اپوزیشن اور شامی حکومت کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات کے حوالے سے کیری کی اس ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق کیری سعودی فرمانروا شاہ سلیمان اور ان کے بیٹے اور نائب ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ محمد بن سلیمان سعودی عرب کے وزیر دفاع بھی ہیں۔
سعودی عرب اور اس کے بعض اتحادیوں نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات رواں ماہ کے آغاز میں اس وقت ختم کر دیے تھے جب ایرانی دارالحکومت تہران اور مشہد میں مشتعل مظاہرین کی طرف سے سعودی سفارت خانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ مظاہرین سعودی عرب کی طرف سے شیعہ عالم دین شیخ نِمر باقر النمر کو پھانسی دیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ دو جنوری کو شیخ نمر کے ساتھ 43 دیگر افراد کو دہشت گردی کے الزامات میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
کیری کے دورہ ریاض سے قبل امریکی وزارت خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا تھا، ’’ہم ایران میں سعودی تنصیبات پر حملے کے رد عمل میں سعودیہ کے غم و غصے کو سمجھتے ہیں، مگر ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ تناؤ میں کمی بہت اہم ہے، نہ صرف امریکا کے لیے بلکہ علاقے کے لیے۔‘‘
سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ تناؤ کے خاتمے کے لیے چین، فرانس اور پاکستان بھی کوششیں کر رہے ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ 20 جنوری کو کہا تھا کہ سعودی سفارت خانے پر حملہ غلط تھا اور اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار کا اس بیان کے حوالے سے کہنا تھا، ’’یہ میرے خیال میں ہمارے نقطہ نظر سے بہت اہم بات ہے۔ اور امید ہے کہ اس سے صورتحال میں بہتری پيدا ہو سکتی ہے اور سعودی عرب کے لیے راستہ کھُل سکتا ہے کہ وہ تہران میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دے۔‘‘
کیری سوئٹزرلینڈ کے شہر داووس میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس سے ریاض پہنچے ہیں۔ جمعرات کے روز انہوں نے داووس میں کہا تھا کہ شامی امن مذاکرات پیر 25 جنوری سے جنیوا میں پروگرام کے مطابق شروع ہوں گے۔ ابھی تک اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا کہ شام میں سرگرم کون سے گروپ ان مذاکرات میں اپوزیشن کی نمائندگی کریں گے۔