1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کو پاکستانی ایٹمی اسلحے کی ممکنہ فروخت کی تردید

مقبول ملک5 جون 2015

پاکستان نے بین الاقوامی میڈیا میں اس بارے میں حالیہ خبروں کو قطعی غلط اور بےبنیاد قرار دیتے ہوئے ان کی سختی سے تردید کی ہے کہ اسلام آباد ممکنہ طور پر سعودی عرب کو ایٹمی ہتھیار فروخت کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fbym
تصویر: Fotolia/Marcel Schauer

واشنگٹن سے جمعہ پانچ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات پاکستانی خارجہ سیکرٹری اعزاز احمد چوہدری نے امریکی دارالحکومت میں اپنے کئی روزہ اعلٰی سطحی مذاکرات کے بعد جمعرات کی شام کو کہی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے سیکرٹری نے وائٹ ہاؤس اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ اہلکاروں کے ساتھ اپنی بات چیت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تمام دعوے ’قطعی غلط اور بےبنیاد‘ ہیں کہ اسلام آباد کسی بھی دوسرے ملک کو ایٹمی ہتھیار فروخت کر سکتا ہے۔

اعزاز احمد چوہدری نے کہا، ’’پاکستان کے جوہری پروگرام کا کسی بھی دوسرے ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جوہری پروگرام محض اس مقصد کے لیے ہے کہ پاکستان خود کو اس خطرے کے خلاف محفوظ بنا سکے جو اسلام آبا دکی نظر میں اسے اپنے مشرق (میں بھارت) کی طرف لاحق ہے۔ حقیقت اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ جوہری معاملات پر کسی بھی قسم کی کوئی مکالمت نہیں کر رہا۔

اس سے قبل خلیج کی ریاستوں کے چند اعلٰی سفارت کاروں نے مبینہ طور پر اس امکان کی طرف اشارہ کیا تھا کہ سعودی عرب اور غالباﹰ متحدہ عرب امارات بھی اپنے بہت قریبی اتحادی پاکستان سے اس نقطہ نظر سے ممکنہ طور پر ایٹم بم خرید سکتے ہیں کہ خود کو مستقبل کی ممکنہ ایٹمی طاقت ایران کی وجہ سے لاحق ہونے والے خطرات کے خلاف محفوظ بنا سکیں۔

ایران عشروں سے اپنے ایٹمی پروگرام پر کام کر رہا ہے اور مغربی دنیا کی طرف سے اس پر مسلسل الزام لگایا جاتا ہے کہ تہران کے اس جوہری پروگرام میں بنیادی طور پر توجہ عسکری پہلو پر دی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس ایران نے ہمیشہ ہی ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

Flash-Galerie Atommächte weltweit
’پاکستانی جوہری پروگرام کا کسی بھی دوسرے ملک سے کوئی تعلق نہیں‘تصویر: AP

جہاں تک خلیج کے علاقے کی سنی عرب ریاستوں کا تعلق ہے تو وہ سمجھتی ہیں کہ ایران علاقائی سطح پر اپنی خارجہ سیاست میں ’جارحیت پسندانہ‘ سوچ اپناتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں تہران پر خلیجی عرب ریاستوں کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ علاقائی تنازعات کو مبینہ طور پر ہوا دیتے ہوئے لبنان، شام، عراق، یمن، بحرین اور حتیٰ کہ سعودی عرب تک میں دہشت گرد گروپوں کی حمایت کر رہا ہے۔ ایران اپنے خلاف ان الزامات کی بھی بھرپور تردید کرتے ہوئے انہیں مسترد کرتا ہے۔

اس تناظر میں پاکستانی جوہری اثاثوں اور علاقائی سیاست میں اسلام آباد کے کردار کے علاوہ نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کے بارے میں تفصیلی اظہار رائے کرتے ہوئے پاکستانی خارجہ سیکرٹری نے صحافیوں کو بتایا کہ جنوبی ایشیا کی دو حریف ایٹمی طاقتوں کے طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین قیام امن کے نازک عمل میں جو حالیہ مذاکراتی تعطل دیکھنے میں آیا ہے، اس کا ’ذمے دار بھارت‘ ہے۔

اعزاز چوہدری نے کہا، ’’پاکستان بھارت کے ساتھ مکالمت کا تسلسل چاہتا ہے۔ یہ مکالمت ہماری وجہ سے تعطل کا شکار نہیں ہوئی۔ ایسا بھارت کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہم اپنی طرف سے واضح کر چکے ہیں کہ اسلام آباد کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہمارے ذہنوں میں کوئی ابہام نہیں ہے، ہم بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا چاہتے ہیں۔‘‘