1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب: پہلا سنیما رواں ماہ کُھل جائے گا

5 اپریل 2018

سعودی عرب میں 35 برس سے بھی زائد عرصے کے بعد پہلا تجارتی سنیما جلد کھولا جا رہا ہے۔ سعودی وزارت اطلاعات کے مطابق دارالحکومت ریاض میں ملک کا پہلا سنیما گھر 18 اپریل سے عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2vXG8
Saudi-Arabien erstes Kino in Jeddah
تصویر: Reuters/R. Baeshen

مذہبی حوالے سے انتہائی قدامت پسند مسلمان ملک سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں تین دہائیوں سے بھی زائد عرصے کے بعد پہلا سنیما گھر 18 اپریل سے کام شروع کر دے گا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے سعودی وزارت اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی کمپنی AMC انٹرٹینمنٹ ہولڈنگز کو ملک کے مختلف شہروں میں 40 سنیما گھر قائم کرنے کے لیے اجازت نامہ جاری کر دیا گیا ہے جو آئندہ پانچ برسوں کے دوران قائم کیے جائیں گے۔

روئٹرز کے مطابق سعودی عرب میں 1970ء کی دہائی میں بعض سنیما گھر موجود تھے تاہم ملک کے طاقت ور مذہبی رہنماؤں نے حکومت کو یہ سنیما بند کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ تاہم گزشتہ برس سعودی حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ وہ ملک میں سنیما گھر قائم کرنے پر عائد پابندی کو اٹھا لے گی۔ یہ اعلان دراصل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے سعودی عرب میں معاشی اور سماجی اصلاحات کے پروگرام کا حصہ ہے۔ اس معاملے کے بارے میں آگاہی رکھنے والے ایک ذریعے نے روئٹرز کو بتایا کہ ان سنیما گھروں میں لوگوں کو صنفی حوالے سے الگ الگ نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ سعودی عرب میں عام طور عوامی مقامات پر ہوتا ہے۔

روئٹرز کے مطابق سعودی عوام مغربی میڈیا کلچر کے بہت بڑے شائق ہیں۔ سنیما پر پابندی کے باوجود ہالی وُڈ کی فلمیں اور تازہ ٹیلی وژن سیریز بڑے پیمانے پر دیکھی بھی جاتی ہیں اور لوگوں میں مقبول بھی ہیں۔

سعودی عرب میں تبدیلی کی ہوا اور خواتین

سعودی عرب کی کُل آبادی 32 ملین ہے اور اس میں سے اکثریت 30 برس سے کم عمر افراد کی ہے۔ سعودی حکومت نے سال 2030ء تک ملک بھرمیں 350 سنیما گھر قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں مجموعی طور پر 2500 اسکرینز موجود ہوں گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس طرح سالانہ ایک بلین امریکی ڈالرز کے برابر آمدنی ہو گی۔

سعودی وزیر برائے ثقافت و اطلاعات عواد العواد کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ’’سنیما کی بحالی سے ۔۔۔ تفریح پر خرچ ہونے والی رقم سے نہ صرف مقامی معیشت کو ترقی ملے گی سعودی عرب میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔‘‘

ڈرائیونگ کی اجازت ملنے پر سعودی خواتین کے ارادے کیا ہیں؟