1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب اور ایران میں ثالثی کے لیے پاکستان کی کوششیں

شکور رحیم، اسلام آباد12 جنوری 2016

پاکستانی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے ایسی خبروں کو مسترد کیا کہ اسلام آباد حکومت اپنی زمینی فوجی سعودی عرب بھیج رہی ہے۔ ان کے مطابق نہ ہی سعودی حکومت نے ایسی کوئی درخواست کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hc0s
Pakistan Rawalpindi Adel al-Dschubeir bei Raheel Sharif
تصویر: picture-alliance/AA/ISPR

سرتاج عزیز نے منگل کو اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی خارجہ امور سے متعلق قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی پر پاکستان کے مؤقف کے بارے میں ان کیمرہ بریفنگ دی۔

اس بریفنگ کے بعد قائمہ کمیٹی کے سربراہ اویس احمد لغاری نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سرتاج عزیز نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک میں فوج بھجوانا پاکستانی خارجہ پالیسی میں شامل نہیں۔ اویس لغاری کے مطابق خارجہ امور کے مشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان صرف اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت اپنی زمینی فوج بیرون ملک بھیجتا ہے۔

سعودی قیادت میں قائم ہونے والے چونتیس اسلامی ممالک کے اتحاد میں پاکستان کی شمولیت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اویس لغاری نے بتایا کہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان اس کا حصہ ہے لیکن اس کا کردار صرف خفیہ معلومات کے تبادلے اور فنی تربیت کی فراہمی تک محدود ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف ہے۔

ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی کم کرانے کے لئے پاکستان کی کوششوں کے بارے میں اویس لغاری نے کہاکہ ہمارا مؤقف ہے کہ دونوں ممالک قریب آئیں اور ان کے درمیان فاصلے کم ہوں۔ انہوں نے مشیر خارجہ کی کمیٹی کو دی گئی بریفنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان شام اور یمن کی صورتحال پر مؤقف میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف فرقہ وارانہ نہیں اور نہ ہی اسے فرقہ وارانہ رنگ دیا جانا چاہیے۔

خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مشیر خارجہ نے کمیٹی کو ان اقدامات کے بارے میں بھی بریفنگ دی، جو پاکستانی حکومت نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لئے کیے ہیں۔ تاہم اویس لغاری نے صحافیوں کو ان اقدامات کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔

خارجہ کمیٹی کے ایک اور رکن اور حکومت کی اتحادی مسلم لیگ (فنکشنل) کے رہنما غوث بخش مہر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے ارکان کو بتایا گیا کہ پاکستان دونوں برادر اسلامی ممالک ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کے لئے کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سولہ جنوری کو جدہ میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزرا ئے خارجہ کا اجلاس منعقد ہورہا ہے، امید ہے کہ اس میں ایرانی وزیر خارجہ بھی شرکت کریں گے اور یہ ایک اچھا موقع ہو گا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی کمی کے لئے راہ ہموار ہو سکے۔‘‘

انہوں نے کہاکہ پاکستا ن کی بھر پور کوشش ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی کے لئے سیاسی راستہ اختیار کیا جائے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتیں ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں۔ اس سے قبل بھی حکومت کو سعودی عرب کی زیر قیادت یمن میں حوثی قبائل کے خلاف جنگ میں فوج بھجوانے کے معاملے پر فیصلہ کرنے میں شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد ازاں پارلیمنٹ کی متفقہ قراداد کی منظوری کے بعد پاکستانی فوج کو یمن نہ بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ گزشتہ ماہ سعودی عرب کی جانب سے ایران کی شمولیت کے بغیر پاکستان سمیت چونتیس اسلامی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کی تشکیل کے اعلان پر بھی پاکستانی حکومت کو اس بارے میں وضاحت کے لئے حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وضاحت کرنے کے لئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس دوران صرف تین دن کے وقفے سے سعودی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے پاکستان کے دورے کیے اور اعلیٰ سول اور فوجی قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔