سری لنکا: شہریوں کی ہلاکت، چھان بین کی اپیل
18 مئی 2009سری لنکا کی حکومت نے آج يہ اعلان کيا کہ ملک ميں طويل عرصے سے جاری خانہ جنگی ختم ہو چکی ہے اور تامل باغيوں کو مکمل شکست دے دی گئی ہے۔
سری لنکا نے 26 سال کی خانہ جنگی کے بعد تامل باغيوں کی شکست اور سرکاری افواج کی فتح کا اعلان کيا ہے۔ صدر مہندا راجاپاکشے نے اعلان کيا کہ باغيوں کو فوجی لحاظ سے شکست دے دی گئی ہے ۔ ايک فوجی ترجمان نے کہا:'ہم نے سارا علاقہ صاف کرديا ہے ۔ درحقيقت يہاں لوگ کسی قسم کی ديکھ بھال کے بغير رہ رہے تھے ۔ فوج نے علاقے ميں داخل ہو کر تمام شہريوں کو بچا ليا ہے ۔'
سری لنکا ميں 1983 سے جاری خانہ جنگی ميں پچھتر ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ۔ تامل ٹائيگرز کی طرف سے ان کی شکست تسليم کرنے کے اعلان کے بعد دارا لحکومت کولمبو ميں ہزاروں لوگوں نے جنگ کے خاتمے پر خوشياں منائيں ۔ سری لنکا کے سرکاری ٹيليویژن نے آج سہ پہر اپنی نشريات روک کر تامل ٹائيگر باغيوں کے قائد پربھاکرن کی ہلاکت کا اعلان کيا ۔ مسلح افواج کے سربراہ جنرل فونسيکا نے ٹيليویژن پر بتايا کہ فوج نے تمام باغيوں کو شمالی ميدان جنگ سے نکال باہر کيا ہے، اب ہلاک ہونے والوں ميں پربھاکرن کی لاش کی شناخت کا کام جاری ہے ۔
سری لنکا ميں تامل اقليت اور سنگھالی اکثريت کے مابين تنازعے کی جڑيں برطانوی نو آبادياتی دور تک پھيلی ہوئی ہيں ۔ برطانوی دور ميں تاملوں کو تعليم کے بہتر مواقع دئے گئے اور انہيں سرکاری محکموں ميں ملازمتوں ميں ترجيح دی گئی ۔ اس وقت تاملوں کی آبادی ، ملک کی مجموعی بيس ملين کی آبادی ميں تقريبا تيرہ فيصد ہے ۔ ان کی اکثريت ہندو ہے ،ليکن بعض مسلمان اور عيسائ بھی ہيں ۔ پچھتر فيصد سنگھاليوں ميں سے اکثريت بدھ مت کی پيروکار ہے ۔
آزادی کے بعد ، ماضی ميں ناانصافيوں کے شکار سنگھاليوں نے سماجی اور تعليمی اداروں اور نظام صحت ميں ملازمتوں کے دروازے تاملوں پر بند کردئے ۔ تعليمی اداروں ميں داخلے کے کوٹہ سسٹم کو رائج کرکے بھی تاملوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ۔
تاہم سری لنکا کی طويل خانہ جنگی کے سائے ميں يہ بات اکثر پس منظر ميں چلی جاتی ہے کہ ماضی ميں سيلون کہلانے والے اس ملک نے 1948 ميں آزادی حاصل کرنے کے بعد کتنی کاميابياں حاصل کی ہيں ۔ آج باون فيصد بالغ افراد لکھ پڑھ سکتے ہيں ۔ اوسط متوقع عمر اکہتر برس ہے جو جنوبی ايشيا ميں دوسرے ہمسايہ ملکوں سے کہيں زيادہ ہے۔
سری لنکا ميں تامل باغيوں کی شکست اور ان کے قائد اور اعلیٰ قيادت کی ہلاکت کے بعد اب يہ خطرہ ہے کہ يہ تنظيم زير زمين چلے جانے کے بعد خود کش حملے کر سکتی ہے ۔