1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سبین محمود: خاموشی کے خلاف آواز بھی خاموش کر دی گئی

مقبول ملک25 اپریل 2015

پاکستان میں انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن اور ’دا سیکنڈ فلور‘ نامی ادارے کی بانی ڈائریکٹر سبین محمود کے قتل کی ملک بھر میں شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ انہیں کل رات کراچی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1FEjZ
تصویر: Twitter

سبین محمود خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی انتہائی سرگرم تھیں لیکن وہ ملک میں پسماندہ صوبوں، اقلیتوں اور پسے ہوئے سماجی طبقات کو ان کے حقوق دلوانے کی جدوجہد کرنے والی فعال شخصیات میں بھی شمار ہوتی تھیں۔ ان کی مصروفیات کی ایک خاص بات ایسے متنازعہ موضوعات کو زیر بحث لانا بھی تھا، جن پر کھل کر اور غیر جانبدارانہ انداز میں مباحثے کو پاکستان کے سیاسی، ثقافتی اور مذہبی عدم رواداری کے شکار موجودہ معاشرے میں بالعموم شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔

سبین محمود کل رات نو بجے کے قریب کراچی میں The Second Floor (T2F) سے گاڑی میں اپنی والدہ کے ساتھ گھر واپس جا رہی تھیں کہ راستے میں نامعلوم مسلح افراد نے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ انہیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ چکی تھیں۔ اس حملے میں، جس کی ذمے داری ابھی تک کسی نے بھی قبول نہیں کی، سبین محمود کی والدہ بھی زخمی ہوئی ہیں، جو ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق اپنے قتل سے محض چند ہی گھنٹے قبل سبین محمود نے اپنے ادارے ’دا سیکنڈ فلور‘ میں کھلے مباحثے کی صورت میں ایک ایسی تقریب کا اہتمام بھی کیا تھا، جس کا موضوع پاکستان کا صوبہ بلوچستان تھا۔ بلوچستان کے عوام اور سیاستدانوں میں پاکستان کی وفاقی حکومت اور سکیورٹی اداروں کے حوالے سے کئی طرح کی شکایات پائی جاتی ہیں، جن میں صوبے کے قدرتی وسائل میں خود اسی صوبے کو کافی حصہ نہ دینا، عمومی پسماندگی میں وفاق کا مبینہ کردار اور ملکی سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں مقامی باشندوں کے اچانک لاپتہ ہو جانے جیسے مسائل شامل ہیں۔

اسی تناظر میں T2F میں جمعے کے روز بلوچستان میں قوم پسندی اور صوبے سے متعلقہ اہم لیکن نازک معاملات پر خاموشی کو توڑنے کے موضوع پر جو تقریب منعقد کی گئی تھی، اس میں ماما قدیر، فرزانہ بلوچ اور محمد علی تالپور جیسی شخصات کے ساتھ گفتگو کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس تقریب کو Unsilencing Balochistan Take 2 کا نام دیا گیا تھا، کیونکہ Take 1 کے طور پر ایسی ہی ایک تقریب پہلے بھی منعقد کی جا چکی تھی۔ لیکن سماجی انصاف کی خواہش کے تحت بلوچستان کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کرنے والی سبین محمود کو اس تقریب کے بعد ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔

Pakistan Karachi Anschlag auf Frauenrechtsaktivistin Sabeen Mehmud
سبین محمود کو جمعے کی رات کراچی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیاتصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Adil

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق سبین محمود نے جمعے کے روز اپنے ادارے میں بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کے اچانک لاپتہ ہو جانے کے موضوع پر جس سیمینار کا اہتمام کیا، وہ ابتدائی پروگرام کے مطابق گزشتہ ماہ لاہور کی ایک یونیورسٹی میں منعقد کیا جانا تھا، لیکن مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق تب حکام نے مداخلت یہ پروگرام رکوا دیا تھا۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس قتل پر نظر آنے والے رد عمل میں کئی ماہرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ سبین محمود کو اس لیے قتل کیا گیا کہ انہوں نے بلوچستان کے معاملات پر خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی تھی۔ سوشل میڈیا پر اس قتل کے فوری بعد اور آج ہفتے کے روز انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی شخصیات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس قابل مذمت قتل کی ذمے داری اگرچہ ابھی تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی اور حملہ آور بھی ’نامعلوم‘ تھے، تاہم اس قتل میں ممکنہ طور پر ایسے عناصر اور ریاستی ادارے بھی ملوث ہو سکتے ہیں جو مثال کے طور پر پاکستان میں شہریوں کے اچانک لاپتہ ہو جانے کے واقعات پر کھلی بحث نہیں چاہتے۔

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے آج ہفتے کے روز اپنے ایک بیان میں سبین محمود کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس واقعے کی فوری اور مکمل چھان بین کی جائے گی۔ کراچی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق سندھ حکومت نے بھی صوبائی پولیس کے سربراہ سے اس قتل اور اس کے ممکنہ محرکات کے بارے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔

سبین محمود جس ادارے کی ڈائریکٹر تھیں، وہ پاکستان میں لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں ماضی کے کافی ہاؤس کلچر کو دوبارہ زندہ کرنے کی ایک ایسی سماجی کوشش تھی، جس کے تحت انہوں نے شہری حقوق کے تحفظ اور فن و ادب کی ترویج کی مسلسل کوشش کی۔ ’دا سیکنڈ فلور‘ کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے انسانی حقوق کی وکالت اور آرٹ اور کلچر کے شعبوں میں ڈیجیٹل تخلیقات کا ایک اہم مرکز بن چکا تھا، جس نے پچھلے چھ برسوں کے دوران ترقی پسندی اور شہری حقوق کا احاطہ کرنے والی سینکڑوں اہم تقریبات کی میزبانی کی۔