1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ساٹھ واٹ کے بلب کی فروخت عنقریب ممنوع

30 اگست 2011

یورپی یونین میں توانائی کی بچت کے لیے سن 2009ء سے چار مراحل پر مشتمل ایک منصوبے کے تحت زیادہ بجلی خرچ کرنے والے روایتی بلبوں پر بتدریج پابندی عائد کرتے ہوئے ان کی جگہ کہیں کم خرچ انرجی سیور بلبوں کو رواج دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/12PjX
تصویر: picture-alliance / dpa

یورپی یونین کے رکن ملکوں میں ستمبر 2009ء میں ایک سو واٹ کے بلبوں کی فروخت ممنوع قرار دی گئی تھی، ایک سال کے بعد 60 واٹ سے زیادہ کے بلب ممنوع قرار پائے جبکہ اسی ہفتے یکم ستمبر کو اس منصوبے کے تیسرے مرحلے کا آغاز ہو رہا ہے۔ اگست کے اِن آخری ایک دو دنوں میں ابھی بازار میں ساٹھ واٹ کے روایتی بلب خریدے جا سکتے ہیں لیکن یکم ستمبر کے بعد ایسا ممکن نہیں ہو گا۔

یکم ستمبر سے ایسے تمام روایتی بلبوں کی فروخت ممنوع قرار دے دی جائے گی، جن کی استعداد چالیس واٹ سے زیادہ ہو گی۔ یورپی یونین کے اِس چار مراحل پر مشتمل منصوبے کے آخری مرحلے کا اطلاق اگلے سال یعنی ستمبر 2012ء سے ہو گا، جب دَس واٹ سے زیادہ طاقت کے تمام روایتی بلب ممنوع قرار پائیں گے۔ تب گویا ایک طرح سے زیادہ بجلی خرچ کرنے والے روایتی بلبوں کا عہد اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔

جرمنی میں ایک شخص جدید انرجی سیور بلب لگانے کے لیے اپنا پرانا روایتی بلب اُتار رہا ہے
جرمنی میں ایک شخص جدید انرجی سیور بلب لگانے کے لیے اپنا پرانا روایتی بلب اُتار رہا ہےتصویر: AP

وقت کے ساتھ ساتھ جرمنی میں ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں جدید انرجی سیور بلبوں کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ کم بجلی خرچ کرنے والے یہ بلب روایتی بلب کے مقابلے میں تقریباً 80 فیصد کم بجلی خرچ کرتے ہیں جبکہ روشنی اُنہی کے برابر دیتے ہیں۔ اب بازار میں کہیں زیادہ اچھے معیار کے انرجی سیور بلب آچکے ہیں، جو دَس دَس ہزار گھنٹے تک روشنی دے سکتے ہیں۔

ان کا ایک نقصان لیکن یہ ہے کہ ان کی تیاری میں زہریلا دھاتی پارہ بھی استعمال ہوتا ہے، اِس لیے جرمنی میں مثلاً یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ دکانداروں کو استعمال شُدہ بلب واپَس لینے کا پابند بنایا جائے۔ ابھی تک تو یہ حالت ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ فیوز انرجی سیور بلب عام کوڑے کرکٹ ہی میں پھینک دیے جاتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ٹیوبوں پر مشتمل انرجی سیور بلبوں کے بجائے مستقبل  میں ایل ای ڈیز والے بلب زیادہ رواج پائیں گے، جو پچیس سے لے کر تیس سال تک چل سکتے ہیں۔

آئندہ برس زیادہ بجلی خرچ کرنے والے روایتی بلبوں کا تاریخی عہد اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا
آئندہ برس زیادہ بجلی خرچ کرنے والے روایتی بلبوں کا تاریخی عہد اپنے اختتام کو پہنچ جائے گاتصویر: picture-alliance / KPA/Theissen

صرف جرمنی میں ہی انرجی سیور بلبوں کی مدد سے سالانہ تقریباً 22 ارب کلوواٹ آورز بجلی بچائی جا سکے گی۔ اس میں سے ایک تہائی سے زیادہ بچت گھریلو صارفین کی مَد میں کی جا سکے گی۔ صرف یکم ستمبر سے ساٹھ واٹ کے روایتی بلبوں کی فروخت پر پابندی ہی کے نتیجے میں جرمنی میں سالانہ 4.5 ملین ٹن ضرر رساں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بچت ہو سکے گی۔

دُنیا کے دیگر خطّوں میں بھی بتدریج روایتی بلب ترک کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ آسٹریلیا نے فروری 2007ء میں اعلان کیا تھا کہ وہ زیادہ بجلی خرچ کرنے والے روایتی بلبوں پر پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ میں بھی 2007ء کے آخر میں کئی مراحل پر مشتمل ایک منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں سن 2014ء تک تمام روایتی بلبوں پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ بھارت میں ابھی روایتی بلب ہر جگہ فروخت کے لیے دستیاب ہیں تاہم  حکومت نے سن 2012ء تک تقریباً 400 ملین روایتی بلبوں کی جگہ انرجی سیور یا کم خرچ بلب لگانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں