1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سانحہ گوجرہ:مسیحی آبادی ابھی تک خوف کے سائے میں

11 اکتوبر 2009

پاکستانی صوبہء پنجاب کے شہر گوجرہ میں دو ماہ قبل ایک مسحیحی آبادی کو خونریز حملے کا نشانہ بنایا گیا اور چالیس کے قریب گھروں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ مقامی آبادی ابھی تک خوف سے باہر نہیں نکل پائی۔

https://p.dw.com/p/K3o7
گوجرہ کے واقعے پر لاہور میں احتجاجی جلوستصویر: AP

دو ماہ قبل اگست میں مسیحی آبادی کے خلاف حملے میں آٹھ افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے سات الماس حمید کے رشتے دار تھے۔ اپنے جلے ہوئے سنسان گھر میں کھڑے الماس حمید نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے بتایا:"ہم اپنی جانیں بچانیں کیلئے بیڈ روم میں چھپے ہوئے تھے۔ ہمارے والد کو پہلے ہی بندوق کے فائر سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حملہ آوروں نے ہم پرکیمیکل پھینکا اور ہم سب کو زندہ جلانے کیلئے آگ لگا دی۔ خدا نے نہ جانے مجھے کیوں بچا لیا جبکہ میری بیوی، دو بچوں، میرے بھائی اور میری سالی، سب کو زندہ جلا دیا گیا۔" حمید نے مزید تفصیلات بتا تے ہوئے کہا:"ہم یہاں محفوظ نہیں ہیں، ہم عسکریت پسندوں سے بچتے پھر رہے ہیں، ہمیں ابھی تک جان سے مار دینےکی دھمکی آمیز ٹیلیفون کالزکی جاتی ہیں۔"

گوجرہ شہر پہلے ایک اور حوالے سے جانا جاتا تھا اور وہ یہ کہ یہاں سے قومی ہاکی ٹیم کیلئے کھلاڑی چنے جاتے تھے۔ پھر اگست 2009ء کا پہلادن گوجرہ شہر کیلئے ایک نئی شناخت لے کر ابھرا، جب ایک بپھرے ہوے ہجوم نے چند لمحوں میں ہی عیسا ئی آبادی کو گھیر لیا اور جلاؤگھیراؤکا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان واقعات میں چالیس گھروں کو جلا دیا گیا جبکہ مجموعی طور پر آٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔

Proteste gegen Attacken auf Pakistani Christen Punjab
احتجاجی جلوس کا ایک اور منظرتصویر: AP

ان فسادات کی جوپہلی وجہ سامنےآئی وہ مسلم گروہ کی طرف سے لگایا گیا یہ الزام تھا کہ مسیحیوں کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی تھی جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہےکہ "یہ افواہ مقامی مسجد کی طرف سے پھیلائی گئی تھی"۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فیصل آباد کے بشپ جوزف کوٹس کا کہنا ہے کہ "اِس واقعے کے پیچھے اُس گروہ کا ہاتھ ہے، جو لوگوں کو محض اس لئے بھڑکاتا ہے کہ ایک خاص قسم کا اسلام اس ملک میں نافذ کیا جائے، جو کہ اس ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوگا"۔

اس واقعے کے بعد گوجرہ کی آبادی تب ایک بار پھر خوف و ہراس کا شکار ہوگئی، جب ستمبر کے مہینے میں سیالکوٹ کے نواحی قصبے میں ایک مسیحی فانش مسیح پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام عائد کرتے ہوئے پہلے تو اسے زدوکوب کیا، پھر اسے گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں بتایا گیا کہ اُس نے حوالات کے اندر خود کُشی کر لی۔

Proteste gegen Attacken auf Pakistani Christen Punjab
مسیحی آبادی کے نمائندے نعرے لگاتے ہوئےتصویر: AP

فیصل آباد سے پچاس کلومیٹر دور واقع گوجرہ شہر میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ ہے جبکہ مسیحی پینتیس ہزار ہیں اور اب تک دونوں امن کے ساتھ رہ رہے تھے۔ پاکستانی آبادی میں مسیحیوں کا تناسب تین فی صد سے بھی کم ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال کا تو ہین رسالت و قرآن کے اُن قوانین سے گہرا تعلق ہے، جنہیں ضیاء دورحکومت میں متعارف کروایا گیا تھا۔ ان قوانین کے حوالے سے بہت سے دیگر حلقے بھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، جن میں حقوقِ انسانی کے کارکن سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔

اس حوالے سے مشہور تجزیہ نگار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ "مختلف کمیونیٹیز کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ہے، جس نے ابھی تک واضح نتائج نہں دئے"۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ "گوجرہ فسادات کو مسلم عیسائی فسادات کی خاص تاریخ کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے، ان کو گوجرہ تک ہی محدود رکھنا چاہئے"۔

حکومت پاکستان کی جانب سے گوجرہ کے متاثرین کو ہر ممکن امداد کی یقین دہانی کروائی جارہی ہے۔ صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور کامران مائیکل کا کہنا ہے کہ "پچیس لاکھ ڈالر کی خاص گرانٹ جاری کی گئی ہے" تاکہ متاثرین کے نقصان کا جلد ازالہ کیا جا سکے"۔ اِس تمام مالی معاونت کے باوجود حکومت کو قانون سازی بھی کرنا ہوگی تاکہ مذہبی جنونیوں کو مستقبل میں کسی کے گھر کو اس کی قبر بنانے سے روکا جا سکے۔

رپورٹ: عبدالرؤف انجم

ادارت: امجد علی