1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سال 2017، حقوق خواتین کے لیے یادگار برس

عنبرین فاطمہ/ نیوز ایجنسیاں
28 دسمبر 2017

گلابی ٹوپیاں پہنے لاکھوں مظاہرین کا مارچ ہو یا خواتین کا اپنے ’’گنہ گاروں‘‘ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا یا چلی سے لے کر بھارت تک خواتین کے حق میں قوانین سازی، 2017  کے کئی لمحات خواتین کے حوالے سے اہم اور یادگار رہے۔ 

https://p.dw.com/p/2q3p2
USA Michael Moore mit Pussyhat vor dem Protestmarsch der Frauen in Washington
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com

حقوق خواتین کے علم برداروں کے مطابق اس برس کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا بھر میں استقاط حمل کے سلسلے میں دی جانے والی امداد کو محدودکر دینے کا حکم یہ یاد دلاتا ہے کہ خواتین کو مکمل طور پر اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے مطابق جہاں ایک طرف امریکا اور چند دیگر ممالک میں قوت مزاحمت کے فروغ کی ہوائیں چل رہی ہیں تو وہیں مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکا اور افریقہ میں صنفی تفریق کے خاتمے کی جانب قدم بڑھانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ 

خبر رساں ادارے  تھامس رائٹرز فاونڈیشن سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر  فومذیل ملامبو کہتی ہیں، ’’یہ سال صنفی تفریق کے قوانین سے نمٹنے کا سال تھا۔‘‘

Symbolbild Vergewaltigung
تصویر: picture-alliance/dpa

اس سلسلے میں اس برس لبنان، تیونس اور اردن نے اپنے ملک میں رائج وہ قوانین ختم کر دیے ہیں جس کے تحت زیادتی کا  مرتکب  شخص زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون سے شادی کرکے سزا سے بچ سکتا تھا۔  

فومذیل ملامبو کے مطابق اس برس ملاوی، ہنڈورس، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹباگواور گوئٹے مالا میں بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے اس وقت بڑی کامیابی حاصل ہوئی جب ان ممالک نے کم عمری کی شادیوں کے قومی قوانین کو خواتین کے حق میں تبدیل کر دیا۔ اس کے علاوہ بھارت جہاں کم عمری کی شادیاں غیر قانونی مگر عام ہیں، وہاں قانون کے مطابق 15 سے 18 سال عمر کی بیویوں سے سیکس کو قابل سزا جرم گردانا جائے گا۔

Indien Kindsbraut
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/H. Tyagi

دوسری جانب یہ بات بھی خوش آئند قرار دی جا رہی ہے کہ اس برس جنسی تعصب کے خلاف مزاحمت بھی زیادہ دیکھی گئی۔ یعنی زیادتی کا شکار خواتین کو مورودالزام ٹہرانے، ان کی بات پر یقین نہ کرنے اور ان کو گناہ گار سجمھنے کے بجائے مجرم کو جرم کا ذمہ دار قرار دیئے جانے کا رجحان ہے۔

اس ہی تناظر # Metoo  کے عنوان سے ہونے والے احتجاج کی مقبولیت ملی جس میں دنیا بھر کی خواتین نے ان افراد کے نام لیے جنہوں نے ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کے علاوہ امریکی صدر ٹرمپ کے خواتین کے لیے نہایت نازیبا بیان پر ہونے والا احتجاج بھی دنیا کی توجہ کا مرکز بنا۔    

 

امریکی دارالحکومت میں خواتین کا مارچ رات بھر جاری رہا

  ہیش ٹیگ می ٹو، 2017ء میں سب سے زیادہ بااثر