سابق جرمن وزیر خارجہ ویسٹر ویلے انتقال کر گئے
18 مارچ 2016گیڈو ویسٹر ویلے کی ان ہی سے موسوم ’ویسٹر ویلے فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے انٹرنیٹ پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے:’’ہم لڑے، ہماری نظر منزل پر تھی، ہم ایک ساتھ گزرے ہوئے بہترین وقت کے لیے شکر گزار ہیں۔ محبت باقی رہے گی۔‘‘ وہ کولون میں زیر علاج تھے۔ اُنہیں گزشتہ سال نومبر میں حالت خراب ہو جانے پر ہسپتال لے جایا گیا تھا اور وہیں آج اُن کا انتقال ہو گیا۔
ویسٹر ویلے فاؤنڈیشن کے مطابق سابق وزیر خارجہ خون کے سرطان میں مبتلا تھے۔ گیڈو ویسٹر ویلے 2001ء سے لے کر 2011ء تک جرمنی کی لبرل سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ 2009ء سے لے کر 2013ء تک وہ جرمنی کے وزیر خارجہ بھی رہے۔ گیڈو ویسٹرویلے ستائیس دسمبر 1961ء کو باڈ ہونیف نامی قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل سمیت ملک کے اہم سیاستدانوں نے ویسٹر ویلے کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ایف ڈی پی کے موجودہ سربراہ کرسٹیان لِنڈنر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ’’ گیڈو نے بہت سخت مقابلہ کیا ہے۔ یہ دکھ اتنا بڑا ہے کہ اس کے اظہار کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔‘‘
2014ء میں انکشاف ہوا تھا کہ ویسٹر ویلے خون کے سرطان میں مبتلا تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صبح جوگنگ کے دوران وہ گر گئے اور ان کے ہاتھ سے خون رسنے لگا۔ ڈاکٹر کے پاس جانے پر جب ان کا خون ٹیسٹ کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ لیوکیمیا کے مریض تھے۔
گیڈو وسٹر ویلے ہم جنس پرست تھے۔ وہ 2003ء سے تاجر مشائیل مرونس کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے اور 2010ء میں انہوں نے اپنے اس باہمی رشتے کو قانونی شکل بھی دے دی تھی۔ یہ دونوں بون شہر میں شادی کے بندھن میں بندھے تھے۔ جرمنی میں ہم جنس پرستانہ شادیوں کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ تاہم ایک قانون کے تحت ہم جنس پرست جوڑے خود کو رجسٹر کرا سکتے ہیں، جس کے بعد ان کے لیے عام طور پر شادی شدہ جوڑوں کو ملنے والی قانونی اور مالی رعایتوں میں کافی ممکن ہو جاتی ہیں۔ اٹھارہ مارچ کو ویسٹر ویلے کے انتقال کے موقع پر ان کی فاؤنڈیشن نے اس جوڑے کی ایک تصویر بھی شائع کی ہے۔
ویسٹر ویلے نے اپنی بیماری پر’ دو زندگیوں کے درمیان‘ نامی ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ گزشتہ برس موسم خزاں میں اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی تھی۔ اس وقت امید تھی کہ ویسٹر ویلے سرطان کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تاہم دسمبر میں انہیں ایک مرتبہ پھر ہسپتال میں داخل کرانا پڑا اور نئی ادویات دی گئیں۔ اس کے بعد سے وہ عوامی سطح پر بہت ہی کم دکھائی دیے تھے۔