1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق اسرائیلی وزیراعظم کو قید کی سزا

افسر اعوان25 مئی 2015

سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کو آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ سزا انہیں اپنے ایک امریکی حامی کی طرف سے دی جانے والی رقم کو غیر قانونی طور پر قبول کرنے کے الزام میں سنائی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FW2w
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm

یہ سزا ایک ایسے اسرائیلی رہنما کے زوال کو ظاہر کرتی ہے، جو چند برس قبل تک اس یہودی ریاست کا حکمران تھا اور جو پُر امید تھا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گا۔

اولمرٹ پر رواں برس مارچ میں ان کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کے دوران یہ فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ یہ سزا چھ برس قید کی اس سزا کے علاوہ ہے جو انہیں گزشتہ برس رشوت ستانی کے ایک اور مقدمے میں سنائی گئی تھی اور جو ایہود اولمرٹ کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا سبب بنی تھی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اولمرٹ کے وکیل ایال روزوفسکی کا کہنا ہے کہ ایہود اولمرٹ کی قانونی ٹیم اس فیصلے پر ’سخت مایوس‘ ہوئی ہے اور وہ اس کے خلاف اسرائیل کی سپریم کورٹ میں جائیں گے۔ سزا پر عملدرآمد سے قبل اولمرٹ کو 45 دن کا وقت دیا گیا ہے۔ انہیں آٹھ ماہ کی علیحدہ معطل سزا بھی سنائی گئی جبکہ ان پر 25 ہزار ڈالرز کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

آج پیر 25 مئی کو سنائے جانے والے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اولمرٹ کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں استغاثہ کی طرف سے درخواست کی گئی سزا سے کم سزا سنائی جا رہی ہے تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ اولمرٹ کے ’کردار پر سیاح پرچم لہرا ہے‘۔

ایہود اولمرٹ کو بدعنوانی کے الزامات کے تناطر میں 2009ء کے آغاز میں اپنے عہدے سے الگ ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اولمرٹ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد سخت گیر نظریات کے حامل بینجمن نیتو یاہو کے لیے انتخابات میں راستہ صاف ہو گیا اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششیں پھر کامیاب نہ ہو سکیں۔

ایہود اولمرٹ نے جب 2009ء میں بطور وزیراعظم اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری مذاکرات کو ایک برس کا وقت بیِت چکا تھا اور جن میں فلسطین کی بطور ایک آزاد ریاست کے قیام کے بارے میں معاملات طے کیے جا رہے تھے۔ تاہم ان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست کے قیام کا مسئلہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔

ایہود اولمرٹ کو بدعنوانی کے الزامات کے تناطر میں 2009ء کے آغاز میں اپنے عہدے سے الگ ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا
ایہود اولمرٹ کو بدعنوانی کے الزامات کے تناطر میں 2009ء کے آغاز میں اپنے عہدے سے الگ ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھاتصویر: picture-alliance/AP/F. O'Reilly

69 سالہ اورلمرٹ کو 2012ء میں مختلف الزامات سے بری قرار دے دیا گیا تھا۔ ان میں ایک امریکی بزنس مین مورِس ٹالسنکی سے رقوم سے بھرے لفافے وصول کرنے کا الزام بھی شامل تھا۔ الزامات کے مطابق اولمرٹ نے یہ رقم اس وقت وصول کی جب وہ یروشلم کے میئر اور کابینہ کے رُکن تھے۔

یہ تو ثابت ہو گیا تھا کہ اولمرٹ نے میئر ہوتے ہوئے ٹالسنکی سے قریب چھ لاکھ ڈالر وصول کیے تھے جبکہ بطور رکن کابینہ انہوں نے مزید رقوم بھی وصول کیں۔ تاہم ایسے کوئی شواہد نہیں تھے کہ وہ ان رقوم کو غیر قانونی طور پر ذاتی استعمال میں لائے تھے یا انہوں نے اسے اپنی سیاسی مہم کے لیے غیر قانونی طور پر استعمال کیا۔

نیویارک سے تعلق رکھنے والے آرتھوڈوکس یہودی ٹالسنکی نے گواہی دی تھی کہ یہ رقوم مہنگے سگار، فرسٹ کلاس سفر اور لگژری ہوٹلوں کی بُکنگ پر خرچ ہوئے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کے بدلے انہوں نے اولمرٹ سے کسی قسم کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا تھا۔

تاہم بعد میں اولمرٹ کی سابق آفس منیجر کی طرف سے سرکاری گواہ بنتے ہوئے ان کے خلاف شواہد پیش کیے گئے جس کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمات کی دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تھا۔