1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زندگی کب تک خریدی اور فروخت کی جائے گی؟

فرزانہ علی، پشاور
27 ستمبر 2017

پاکستان میں گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کے واقعات عام سننے میں آتے ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ وہ کیا سماجی عوامل ہیں جن کے سبب لوگ اپنے جسم کا قیمتی عضو بیچنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ فرزانہ علی کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/2koqC
Pakistan, Klinik in der Stadt Pabbi, wo Nieren illegal verpflanzt wurden
تصویر: DW/Farzana Ali

میڈیکل سنٹر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی میری نظر دیوار سے لگے بیڈ پر بیٹھی چالیس سال کے لگ بھگ ایک خاتون پر پڑی جن کے چہرے پر کمزوری اور پریشانی دونوں کی آمیزش تھی۔ جوں ہی میں نے اپنا تعارف میڈیا کے نمائندے کے طور پر کروایا تو وہ ایک دم بولیں،’’ پلیز میری تصویر مت بنائیے گا۔ میری بچیوں کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔‘‘

 میں نے آہستہ سے اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا،’’ آپ پریشان نہ ہوں، اگر آپ نہیں چاہیں گی تو میں آپ سے کوئی بات نہیں کروں گی۔ تسلی رکھیں کوئی کام آپ کی مرضی کے خلاف نہیں ہوگا۔‘‘

 خاتون نے تشکر بھرے لہجے میں کہا کہ ایک بیوہ اور تین بچیوں کی ماں کے لئے اس کی سب سے بڑی دولت اس کی عزت ہی ہوتی ہے اور یہ کہ اگر  اُن کی تصویر اس معاملے میں اخبار میں چھپی تو بہت برا ہو گا۔

 میری یقین دہانی پر خاتون کا اعتماد بحال ہوا اور اُنہوں نے اپنی کہانی بیان کرنا شروع کی لیکن اس وعدے کے ساتھ کہ میں اُن کا اصل نام اور پتہ نہیں لکھوں گی ۔ پتہ چلا کہ تین بیٹیوں کی یہ بیوہ ماں کئی سالوں سے گردوں کی خرابی کے مرض میں مبتلا تھیں۔ بہت علاج کروایا لیکن مرض بگڑتا ہی چلا گیا۔ آخر ایک ماہ قبل ڈاکٹر نے انہیں گردے کی پیوند کاری کا مشورہ دے دیا۔ یہ خاتون اسی کشمکش میں تھیں کہ ایک روز ہسپتال کے وارڈ بوائے نے انہیں مسئلے کے حل کی ترکیب بتاتے ہوئے سترہ لاکھ روپوں کا بندو بست کرنے کو بھی کہا۔ اس پر بچیوں نے باپ کی طرف سے ماضی میں خریدے گئے پلاٹ کو بیچنے کا مشورہ دیا کیونکہ اُن کے نزدیک ماں کی زندگی زمین سے زیادہ قیمتی تھی۔

Farzana Ali Aaj News
خاتون صحافی فرزانہ علیتصویر: DW Akademie

غرض یہ کہ زمین بیچی، وارڈ بوائے کے ذریعے رقم ڈاکٹر کو جمع کرائی گئی اور مذکورہ خاتون نوشہرہ کے علاقے پبّی کے دُعا میڈیکل سنٹر میں علاج کے لئے داخل ہو گئیں۔ آپریشن اگلے روز کرنا طے پایا لیکن آپریشن سے قبل ہی ایف آئی اے اور پبی پولیس کے مشترکہ چھاپے میں آپریشن کرنے والی ٹیم کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس ٹیم میں سرجن سمیت نو افراد شامل تھے۔ گرفتاری کی وجہ گردے کی غیر قانونی پیوند کاری بتائی گئی۔

 

 اب وہ بیوہ خاتون اور اُن کی بیٹی پریشان تھیں کہ اتنی بڑی رقم بھی ہاتھ سے گئی اور علاج بھی نہ ہو سکا۔ اس پر مستزاد یہ کہ کلینک کا مالک طیب فرار ہو چکا تھا۔ ان ماں بیٹی کے ساتھ ساتھ گردہ فروخت کرنے والا عباس بھی پریشان تھا کہ آخر اس کو ملنے والے اُن دو لاکھ روپوں کا کیاہوگا جن کی امید پر وہ پنجاب سے خیبر پختونخوا آیا تھا۔

ماں بیٹی اور عباس کی پریشانی کا قصہ سننے کے بعد جب میں وارڈ کی طرف گئی تو ننکانہ صاحب کے رہائشی بابر کا قصہ اور بھی پریشان کن تھا۔ بابر وہ نوجوان تھا جس کا رات کے پچھلے پہر گردہ نکال کر افغانستان کے سمیع اللہ کو لگایا جا رہا تھا۔ لیکن عین آپریشن کے دوران ہی چھاپہ پڑ گیا۔ بابر نے گفتگو کے دوران بتایا کہ اُس پر لوگوں کا بہت قرض واجب الادا تھا جسے اتارنے کے لیے اُس نے گردہ بیچنے کا فیصلہ کیا۔

بابر اور عباس کی ایک ہی جیسی کہانی تھی بس چہرے اور نام مختلف تھے۔ لیکن اس سارے معاملے میں سب سے اہم وہ کردار تھے جو قصوروار ہوتے ہوئے بھی اس سارے کھیل سے فی الحال باہر تھے۔ بیوہ خاتون جس شخص کو وارڈ بوائے کہہ کر بلا رہی تھی، عباس اسے ڈاکٹر ظفر کہہ کر تو بابر، احمد علی کے نام سے پکار رہا تھا۔

تاہم یہ پتہ لگانا کہ اصل مجرم کون ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ فی الحال پبی کے اس میڈیکل سنٹر کو سِیل کر کے مریضوں کو پشاور کے حیات آباد کڈنی سنٹر منتقل کر دیا گیا ہے۔