1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زمین کے ’نہایت قریب‘ ہوبہو زمین جیسا سیارہ دریافت، رپورٹ

عاطف توقیر13 اگست 2016

سائنس دان ایک نئے سیارے کی بابت معلومات جاری کرنے والے ہیں، جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ’ہوبہو زمین‘ جیسا ہے اور ممکنہ طور پر زندگی کا معاون ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JhhH
USA Astronomie Raumfahrt Kepler-452b NASA entdeckt erdähnlicher Planet
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/NASA/Ames/JPL-Caltech/T. Pyle/Handout

جرمن ہفت روزہ جریدے ڈیر اشپیگل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ سیارہ اپنے ستارے سے ٹھیک اسی فاصلے پر واقع محور میں گردش کر رہا ہے، جیسا زمین کا سورج سے ہے۔ اس فاصلے کو زندگی کے لیے موزوں ترین سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اس فاصلے پر کسی سیارے کو وہ درجہء حرارت میسر آ جاتا ہے، جس پر پانی مائع حالت میں ہو سکتا ہے۔

یہ نیا سیارہ پروکسیما سینٹوری نامی ستارے کے گرد گردش کر رہا ہے اور الفا نظامِ شمسی کا حصہ ہے۔ ڈیراشپیگل نے ذرائع کا نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ اب تک معلوم کردہ تمام زمین جیسے سیاروں میں سے یہ سیارہ موزوں ترین ہے۔

اس میگزین کے مطابق، ’’اس سیارے کا نام اب تک رکھا نہیں گیا، مگر اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پروکسیما سینٹوری ستارے سے اتنے فاصلے پر ہے، جس پر مائع پانی موجود ہو سکتا ہے، جو کسی مقام پر زندگی کی نمو کے لیے انتہائی ضروری شرط ہے۔‘‘

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’اب تک کوئی بھی سیارہ زمین سے اس قدر مماثلت کا حامل نہیں دیکھا گیا، جیسا یہ ہے۔ اس سیارے کے حوالے سے جنوبی یورپی رصدگاہ ESO اگست کے آخر میں اپنے نتائج جاری کر دے گی۔‘‘

اس رپورٹ میں تاہم اس سیارے سے متعلق مزید معلومات نہیں دی گئیں۔ اس بارے میں جنوبی یورپی رصد گاہ نے بھی کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

USA Astronomie Raumfahrt Kepler-452b NASA entdeckt erdähnlicher Planet
اس سے قبل کیپلر 452 بی بھی دریافت ہو چکا ہے مگر وہ زمین سے خاصا دور ہےتصویر: NASA/Ames/JPL-Caltech

امریکی ادارہ ناسا اس سے قبل متعدد نئے سیاروں کی دریافت سے متعلق اعلانات کر چکا ہے، مگر ان میں سے زیادہ تر یا تو بہت زیادہ گرم یا بہت زیادہ سرد تھے، جہاں پانی مائع حالت میں نہیں رہ سکتا۔ بعض سیارے گیسی تھی یعنی وہ مشتری یا نیپچون کی طرح کے تھے اور زمین یا مریخ کی طرح کے چٹانی نہیں تھے۔

گزشتہ برس امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے ایک ایکسپو پلینِٹ دریافت کیا تھا، جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ زمین سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ زمین جیسے سیاروں کی تلاش کے لیے کیپلر نامی دوربین خلا میں موجود ہے، جو گزشتہ کئی برسوں سے یہی کام کر رہی ہے۔ اس سے قبل کیپلر 452 بی نامی سیارہ دریافت کیا گیا تھا، جو زمین سے ساٹھ فیصد بڑا ہے اور اس میں دو بڑے آتش فشاں ہیں۔ اس کے علاوہ اس پر سمندر اور دھوپ بھی بالکل زمین جیسے ہیں اور وہاں ایک سال 385 دنوں کا ہے۔ تاہم اس سیارے پر کشش ثقل زمین سے دوگنی ہے۔ زمین سے اس سیارے کا فاصلہ 14 سو نوری برس ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں انسان کی اس سیارے تک پہنچ ممکن نہیں۔

لیکن اگر پروکسیما سینٹوری کے گرد چکر کاٹنے والے سیارے کی دریافت عمل میں آتی ہے، تو اس سے زمین کا فاصلہ صرف سوا چار نوری سال کا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ ممکن ہوتا ہے، یہ زمین کی طرح کے سیارے کی تلاش کے کام کے اعتبار سے ایک بہت بڑا سنگ میل ثابت ہو گا۔ گو کہ اس فاصلے کو عبور کرنا بھی اس وقت انسانوں کے بس کی بات نہیں، تاہم یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں اس فاصلے کو سمیٹنے کے لیے اقدامات کر لیے جائیں۔

ناسا کی ویب سائٹ کے مطابق اس سیارے سے زمین کا فاصلہ زمین سے سورج کے درمیانی فاصلے سے دو لاکھ اکہتر ہزار گنا ہے۔

پروکسیما سینٹوری نامی ستارہ سن 1915 میں دریافت کیا گیا تھا۔ الفا سینٹوری نظام میں واقع تین ستاروں میں سے یہ ایک ہے، اگر یا نیا معلوم کردہ سیارہ واقعی اس درکار فاصلے پر واقع مدار میں پروکسیما سینٹوری کے گرد چکر کاٹ رہا ہوا، تو اپنی طرز کی یہ ایک نہایت اہم دریافت ہو گی۔