زمبابوے میں صدارتی انتخابات: ووٹنگ کی شرح بے حد کم
27 جون 2008ان انتخابات میں زمبابوے کے چوراسی سالہ صدر رابرٹ مگابے کی فتح بالکل یقینی ہے کیوں کہ ان انتخابات میں وہی ایک امیدوار ہیں۔
غیر جانبدار مبصرین کے مطابق جمعے کے روز زمبابوے کے صداراتی انتخابات میں رائے دہندگان کی بہت قلیل تعداد نے پولنگ اسٹیشنز کا رخ کیا۔ گو کہ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کیوں کہ زمبابوے کے ان انتخابات کے زریعے صدر رابرٹ مگابے کے اقتدار میں توسیع تقریباً طے ہے۔ رابرٹ مگابے خود یہ کہہ چکے ہیں کہ صرف خدا ہی ان کو صدارت کے عہدے سے ہٹا سکتا ہے۔ ان کی کامیابی کا راستہ خود ان کے بد ترین سیاسی حریف اور حزب ِ مخالف جماعت تحریک برائے جمہوری تبدیلی کے سربراہ مارگن چوانگرائی نے انتخابات کا بائکاٹ کرکے ہموار کر دیاہے۔ حالانکہ مبصرین کی رائے ہے کہ صدارتی انتخابات کے پہلے متنازعہ دور کے فاتح چوانگرائی اگر انتخابات میں حصّہ لیتے تو رابرٹ مگابے کو شکست دے سکتے تھے۔مگر مارگن چوانگرائی کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ مارچ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد سے اب تک مبینہ طور پرحکومت کے ہاتھوں اپنے اسّی سے زائد حامیوں کے قتل اور ان کو مستقل ہراساں کیے جانے کے پیشِ نظر کیا ہے۔
مارگن چوانگرائی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ زمبابوے کے مسئلہ کو افریقہ کل مسئلہ سمجھا ہے اور اس کے لیے وہ کہتے ہیں کہ ایک افریقی حل نکالا جانا چاہیے۔چوانگرئی کا مطالبہ ہے کہ با اثر اور غیر جانبدار افریقی شخصیات پر مشتمل افریقی یونین کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو کہ اس بات کا تعین کرے کہ زمبابوے کی عوام کی کیا خواہشات ہیں۔
صدر رابرٹ مگابے کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے باوجود کس حد تک ان کا بین الاقوامی سطح پر زمبابوے کا صدر تسلیم کیا جائے گا؟ بین الاقوامی برادری کے علاوے خود افریقی ممالک بھی ان انتخابات کو یک سر مسترد کر چکے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے سابق صدر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ افریقی رہنما نیلسن مینڈیلا بھی رابرٹ مگابے کی حکومت کے طرزِ عمل پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کے مطابق برطانیہ سمجھتا ہے کہ مارچ میں ہونے والے پہلے دور کے انتخابات میں جیتنے والوں کے حق کو تسلیم کر لیا جائے۔
مگر کیا رابرٹ مگابے کو اس بات کی کوئی فکر ہے؟ مبصرین کے مطابق رابرٹ مگابے بین الاقوامی برادری کی پرواہ کیے بغیر با آسانی زمبابوے پر مزید کچھ عرصے کے لیے حکومت کرسکتے ہیں۔
دریں اثناء جاپان میں ہونے والے صنعتی ممالک کے جی ایٹ اجلاس میں بھی زمبابوے کے انتخابات کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف جرمن حکومت نے میونخ میں قائم ایک جرمن کمپنی کو زمبابوے کو کرنسی نوٹ چھاپنے کے لیے کاغذ کی ترسیل روکنے کا حکم دیا ہے۔
رابرٹ مگابے کے گرد گھیرا تنگ ہونے کی توقع بھی ان کی جیت ہی کی طرح واضح دکھائی دیتی ہے۔