1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زبردستی نہ کی جائے، مہاجرین کی آہ و بکا

عاطف بلوچ، روئٹرز
9 نومبر 2017

پاپوا نیو گنی کی حکومت نے مانوس جزیرے پر قائم مہاجر کیمپ بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس حراستی مرکز میں موجود مہاجرین اور تارکین وطن سے کہا گیا ہے کہ وہ دو دنوں کے اندر اندر اس کیمپ کو خالی کر دیں۔

https://p.dw.com/p/2nKRy
Proteste gegen Flüchtlingscamps in Sydney Australien
تصویر: Getty Images/AFP/P. Parks

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے پاپوا نیو گنی کی حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ مانوس جزیرے پر قائم ایک بڑے مہاجر کیمپ کو دو دنوں میں بند کر دیا جائے گا۔ آسٹریلوی حکومت کی زیر سرپرستی چلنے والے اس کیمپ میں چھ سو تارکین وطن رہائش پذیر ہیں۔

نیوزی لینڈ کی مہاجرین کو پناہ دینے کی پیشکش

پانی، بجلی اور خوراک کی فراہمی معطل، مہاجرین پریشان

’تارکین وطن کو جزیروں پر رکھا جانا چاہیے‘

’تربیت اور کام دو، ملک بدر نہ کرو‘

ایک ہفتہ قبل اس کیمپ کی بجلی منقطع کر دی گئی تھی جبکہ وہاں موجود مہاجرین کو دیگر ضروری سامان کی ترسیل بھی روک دی گئی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے سے اس کیمپ کے رہائشی بغیر پانی، بجلی، خوراک اور طبی مدد زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

پاپوا نیو گنی کی سپریم کورٹ نے اس کیمپ کو بند کیے جانے کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق یہ کیمپ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ تاہم مہاجرین نے اس کیمپ کو بند کرنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے اور وہ اس کیمپ کو خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پاپوا نیو گنی کی حکومت نے اس کیمپ کو بند کرنے سے قبل تین نئے کیمپ بھی بنائے ہیں تاہم مہاجرین ان نئے کیمپوں میں جانے کو تیار نہیں ہیں۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس حراستی مرکز سے نکل کر کہیں اور گئے تو مقامی لوگ انہیں تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔

تاہم پاپوا نیو گنی کے امیگریشن اور شہریت سروس کی اتھارٹی نے واضح کیا ہے کہ اگر مانوس جزیرے پر قائم اس کیمپ کے مہاجرین نے وہاں سے منتقل ہونے سے انکار کیا تو ان کو زبردستی وہاں سے منتقل کر دیا جائے گا۔ اس اتھارٹی نے کہا ہے کہ جمعرات سے ہی اس مہاجر کیمپ کے گرد نصب باڑوں کو ہٹانے کا کام شروع کر دیا جائے گا۔

علاوہ ازیں پاپوا نیو گنی کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اس صورتحال میں مہاجرین اور تارکین وطن کو ’ان کی بہتری کی خاطر‘ گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مانوس کے مہاجر کیمپ کو ختم کرنے کی راہ میں حائل ہونے والوں کے خلاف مناسب کارروائی بھی کی جائے گی۔

پاپوآ نیوگنی میں مہاجر بستی کی بندش، شدید کشیدگی

پیسیفک کے تارکین وطن، چھان بین کے لیے ٹرمپ اجازت کے منتظر

اقوام متحدہ نے اس پیشرفت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوں ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں نے ان مہاجرین کے خلاف زبردستی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

دوسری طرف نگران آسٹریلوی وزیر اعظم جولی بشپ نے اس کیمپ کے باسیوں پر زور دیا ہے کہ وہ نئے بنائے گئے عارضی کیمپوں میں منتقل ہو جائیں تاکہ وہ فوری طور پر بنیادی اشیائے ضرورت حاصل کر سکیں۔

آسٹریلوی حکومت کے مطابق ان مہاجرین کو نئے شیلٹر سینٹرز میں تمام تر سہولیات میسر ہوں گی اور انہیں بارہ ماہ کی سکیورٹی بھی دی جائے گی کہ انہیں یہاں سے نہیں نکالا جائے گا۔

اس دوران آسٹریلوی حکومت امریکا کے ساتھ مل کر مہاجرین کی درخواستوں پر کارروائی کرے گی تاکہ ان مہاجرین کو امریکا منتقل کرنے کے حوالے سے ضروری قانونی تقاضے پورے ہو سکیں۔ اگر یوں ہوتا ہے تو کينبرا حکومت مانوس اور ناورو کے جزائر پر موجود چودہ سو مہاجرین کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گے۔ ایسے مہاجرین جن کو امریکا بھی مسترد کر دے گا، ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پاپوا نیو گنی میں ہی زندگی گزاریں گے اور انہیں آسٹریلیا جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔