ریپ ریپ ہے، زور زبردستی نہ بھی ہو، سوئیڈن میں نیا قانون
24 مئی 2018سوئیڈن کی پارلیمان میں ایک نیا قانونی بل پاس کیا گیا ہے جس کے مطابق کسی کی اجازت کے بغیر اس سے جنسی عمل ریپ کے زمرے میں آئے گا بھلے اس میں زور زبردستی یا دھمکانے کا عنصر شامل نہ بھی ہو۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق سویڈن کی پارلیمان کی طرف سے منظور کیا جانے والا یہ قانون یکم جولائی سے نافذ العمل ہو گا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس نئے قانون کو سراہا ہے۔ یہ قانون دراصل پہلے سے نافذ شدہ قانون کی تبدیل شدہ شکل ہے جس کے مطابق جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے کو یہ ثابت کرنا ہوتا تھا کہ زیادتی کرنے والے نے طاقت کا استعمال کیا تھا یا یہ کہ متاثرہ فرد کسی ایسی صورتحال میں تھا کہ وہ اپنا دفاع کرنے سے قاصر تھا مثلاﹰ الکوحل وغیرہ کے اثر میں۔
جنسی زیادتیوں کے نو ماہ، روہنگیا خواتین مائیں بننے لگیں
گینگ ریپ کے ملزموں کی بریت: اسپین میں مظاہرے
تاہم اب اس نئے قانون کے مطابق یہ ضروری ہے کہ جسمانی تعلق قائم کرنے سے پہلے کسی شخص کی طرف سے لفظی اجازت یا جسمانی سکنات کے ذریعے اپنی مرضی کا اظہار یا اقرار کیا جانا ضروری ہے۔
سوئیڈن کی پارلیمان میں اس قانون کو بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا۔ اس قانون کے حق میں 257 ووٹ پڑے جبکہ اس کی مخالفت میں صرف 38 ووٹ آئے۔
سوئیڈن کی حکومت کے مطابق اس قانون کی مدد سے جنسی زیادتی کے مرتکب افراد پر زیادہ مؤثر انداز سے فرد جرم عائد کی جا سکے گی۔ اس قانون میں دو نئی شقوں کا بھی اضافہ کیا گیا ہے جن کے تحت غیر محتاط جنسی رویہ اور ریپ کے جرم میں چار سال قید تک کی سزا بھی دی جا سکے گی۔
سوئس حکومت کے مطابق یہ نیا قانون ملک میں بڑھتے ہوئےجنسی جرائم سے نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے معتارف کروایا گیا ہے۔
ع ف ا ب ا (ڈی پی اے، رائٹرز)