1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا مہاجرین: بیانات کی بجائے عملی سوچ اپنائیں، بھارت

جاوید اختر، نئی دہلی
27 اکتوبر 2017

بھارت نے اپنے ملک میں موجود چالیس ہزار روہنگیا مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی تمام تر ممکنہ کوششوں کے درمیان اس بحران کو حل کرنے کے لئے مذمتی بیانات دینے کے بجائے عملی سوچ اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2mcJH
Geflüchtete Rohingya in Bangladesch
تصویر: bdnews24.com

ایشیاء میں مہاجرین کے اس بدترین بحران کے حوالے سے بھارتی خارجہ سکریٹری ڈاکٹر سبرامنیم جے شنکر نے معروف تھنک ٹینک کارنیگی انڈیا کے زیر اہتمام منعقد ایک پروگرام کے دوران سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’’بھارت روہنگیا مہاجرین کے مسئلے کی سنگینی کے مدنظر اپنی تشویش کا اظہار کر چکا ہے اور اس سلسلے میں حکومت نے بنگلہ دیش اور میانمار کے ساتھ اعلی سطحی بات چیت بھی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میانمار کے راکھین صوبہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کا بنگلہ دیش پہنچنا یقیناً تشویش کی بات ہے اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح سے یہ لوگ اپنے بنیادی مقام پر واپس جا سکیں، حالانکہ یہ کام آسان نہیں ہے۔‘‘

روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں جسم فروشی کی خفیہ انڈسٹری
بھارت میں فی الحال چالیس ہزار روہنگیا مہاجرین موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر جموں، دہلی، حیدرآباد، ہریانہ، راجھستان اور اترپردیش میں مقیم ہیں۔ شدت پسند ہندو تنظیمیں اور نریندر مودی حکومت ان مہاجرین کو بھارت سے نکال دینا چاہتی ہے۔ مودی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ رجسٹرڈ پناہ گزینوں کے علاوہ غیرقانونی طور پر مقیم روہنگیا لوگوں کی شناخت کرے۔ مودی حکومت نے گزشتہ ماہ سپریم کورٹ میں بھی ایک عرضی دائر کر کے کہا تھا کہ روہنگیا پناہ گزین ملک کی سلامتی کے لئے خطر ہ ہیں کیوں کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کا تعلق ’پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں‘ سے ہے۔ اس لئے انہیں ملک بدر کرنے کی اجازت دی جائے ۔ لیکن عدالت عظمی نے حکومت کی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے اس مسئلے کو سمجھ بوجھ کے ساتھ حل کرنے، قومی مفادات اور انسانی حقوق کے درمیان توازن اپنانے کا مشورہ دیا تھا۔
حقوق انسانی کی متعدد تنظیموں سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں نے بھی حکومت سے روہنگیا مہاجرین کے مسئلے کو انسانیت نوازی کے جذبے سے دیکھنے کی اپیل کی ہے۔

ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا کی بنگلہ دیش آمد کا سلسلہ جاری

روہنگیا مہاجر کی کہانی، چار دہائیوں بعد بھی پناہ گزین
جے شنکر کا کہنا تھا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کے معاملے میں صرف سخت نکتہ چینی کرنے اور مذمتی بیانات دینے کے بجائے’حساس، عملی اور نرم رویہ‘ اپنانے اور اسے تعمیری انداز میں حل کی ضرورت ہے۔ بھارتی خارجہ سکریٹری نے بتایا کہ بھارت اس مسئلے کے حل کے لئے مختلف علاقائی ماڈلز پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی طر ف اشارہ کرتے ہوے الزام لگایا کہ ایک ملک نے سارک پروسیس کو جام کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ اتوار کو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ڈھاکہ کے دورے کے دوران اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب محمود علی سے بات چیت میں روہنگیا مہاجرین کے بحران کا پائیدار حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ میانمار کو ہر حالت میں روہنگیا مہاجرین کو واپس لینا ہوگا کیوں کہ یہ بنگلہ دیش پر ایک بڑا بوجھ ہے اور بنگلہ دیش اسے کب تک برداشت کرے گا؟ بھارت بھی بنگلہ دیشی کیمپوں میں رہنے والے روہنگیا مہاجرین کی مالی مدد دینے والے ملکوں میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پچیس اگست کے بعد سے اس بحران کے سبب بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے ۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ میانمار کے دورے کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ راکھین ریاست کی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے میانمار کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
دریں اثناء  بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کر کے واپس لوٹے سماجی اور ملی تنظیم جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری محمود مدنی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’بھارت میں پناہ لینے کے لئے مجبور روہنگیا مہاجرین کے ساتھ حکومت کو انسانیت نوازی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس حوالے سے بھارت کو یورپی یونین سمیت ترقی یافتہ ملکوں کے طرز عمل کو اپنانا چاہئے۔‘
محمود مدنی کا مزید کہنا تھا، ’’روہنگیا مہاجرین کو مذہبی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اسے ایک انسانی بحران سمجھتے ہوئے علاقائی طاقتوں کو اس کے ٹھوس اور پائیدار حل کے لئے آگے آنا چاہیے۔‘‘