1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روشنی سے تیز رفتار ذرے کی دریافت سے متعلق دوبارہ تجربہ

29 اکتوبر 2011

روشنی سے تیز رفتار ذرے کی دریافت کا اعلان کرکے طبیعات کی دنیا میں ہلچل پیدا کردینے والے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ وہ اس نتیجے کی پختہ تصدیق کے لیے اپنا تجربہ دہرا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/131Qh
تصویر: Fotolia/DeVIce

فرانس کے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار نیوکلیئر فزکس اینڈ پارٹیکل فزکس IN2P3 کے نائب سربراہ سٹاوروز کیٹسنواز Stavros Katsanevas نے جمعہ 28 اکتوبر کو بتایا کہ نئے تجربے کو شروع ہوئے دو تین روز ہو چکے ہیں۔ اس تجربے کو اوپرا ایکسپیریمنٹ کا نام دیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کیٹسنواز کا کہنا تھا: ’’ ہم نے جو نتائج اخذ کیے ان پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ شاید شماریاتی غلطی کا نتیجہ ہیں۔ یہ تجربہ دوہرانے سے ہمیں ان سوالوں کا جواب مل جائے گا۔‘‘

سٹاوروز کیٹسنواز کے بقول CERN چھ نومبر تک پروٹونز کی ایک خصوصی بیم مختص کر رہا ہے
سٹاوروز کیٹسنواز کے بقول CERN چھ نومبر تک پروٹونز کی ایک خصوصی بیم مختص کر رہا ہےتصویر: picture alliance/dpa

معروف سائنسدان آئن سٹائن کی تھیوری کے مطابق کائنات کی تیز رفتار ترین چیز روشنی ہے جو ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ تاہم رواں برس 23 ستمبر کو یورپی سائنسدانوں کی ٹیم کی طرف سے اس اعلان نے کہ انہوں نے ایک ایسا سب اٹامک ذرہ نیوٹرینو دریافت کیا ہے جو روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کرتا ہے، ماہرین طبیعات کو حیران کر دیا تھا۔ اس ٹیم کی مطابق اس ذرے کی رفتار روشنی کے مقابلے میں 3.75 میل فی سیکنڈ زائد ہے۔

نیوٹرینوز کی یہ رفتار سوئٹزرلینڈ میں واقع یورپی سینٹر برائے نیوکلیئر ریسرچ (CERN) اور اٹلی میں موجود ایک لیبارٹری کے درمیان 732 کلومیٹر طویل راستے میں ماپی گئی۔

یورپی سینٹر فار نیوکلیئر ریسرچ یعنی سیرن اور اطالوی گران ساسو لیبارٹری کے ماہرین نے اوپرا ایکسپیریمنٹ سے حاصل شدہ نتائج کی چھ ماہ تک چھان بین کے بعد ستمبر میں اپنی دریافت کا اعلان کیا تھا۔

ان سائنسدانوں کے مطابق وہ خود بھی ان نتائج پر سخت تذبذب کا شکار ہوگئے تھے اور انہوں نے دیگر ماہرین کو بھی اپنے نتائج کی تصدیق کے لیے کہا تھا۔ یہ نتائج ابھی تک سائنسی تحقیقی جریدوں میں شائع نہیں کیے گئے۔

** FILE ** A May 31, 2007 file photo shows a vieنیوٹرینوز کی رفتار سوئٹزرلینڈ میں واقع یورپی سینٹر برائے نیوکلیئر ریسرچ اور اٹلی میں موجود ایک لیبارٹری کے درمیان 732 کلومیٹر طویل راستے میں ماپی گئیw of the LHC (large hadron collider) in its tunnel at CERN (European particle physics laboratory) near Geneva, Switzerland. One huge scientific experiment being launched Wednesday, Sept. 10, 2008 is described as an Alice in Wonderland investigation into the makeup of the universe, or dangerous tampering with Nature that could spell Doomsday for the Earth. The first beams of protons will be fired around the 27-kilometer (17-mile) tunnel at the launch Wednesday to test the controlling strength of the world's largest superconducting magnets. It will still be several weeks before beams traveling in opposite directions are brought together in collisions that some skeptics fear could create micro "black holes" they theorize could endanger the planet. (AP Photo/Keystone, Martial Trezzini, File)
نیوٹرینوز کی رفتار سوئٹزرلینڈ میں واقع یورپی سینٹر برائے نیوکلیئر ریسرچ اور اٹلی میں موجود ایک لیبارٹری کے درمیان 732 کلومیٹر طویل راستے میں ماپی گئیتصویر: AP

اس اعلان کے بعد سے فزکس کے شعبے میں ایک اوپن ایکسس آن لائن ریویو ویب سائٹ پر بڑی تعداد میں تحقیقی مقالے پیش کیے گئے ہیں۔ ان مقالوں میں سے بعض میں کہا گیا ہے کہ یورپی سائنسدانوں کے نتائج تکنیکی غلطی کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ ان میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اگر پیمائش میں ایک منٹ کی غلطی بھی واقع ہوجائے تو نیوٹرینوز کی رفتار روشنی سے تیز ہونے کا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔

سٹاوروز کیٹسنواز کے بقول CERN چھ نومبر تک پروٹونز کی ایک خصوصی بیم مختص کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تجربے کی تصدیق کے لیے اس مرتبہ رفتار کی پیمائش کے لیے مختلف تکنیک استعمال کی جائے گی۔ کیٹسنواز کے بقول اگر یہ حکمت عملی کامیاب رہی تو پھر اسے اگلے برس یعنی 2012ء اپریل میں ایک زیادہ بڑے اور بہت اہم تجربے میں استعمال کیا جائے گا۔

رپورٹ: افسر اعوان / خبر رساں ادارے

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں