1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی خواتین جس کے ساتھ چاہیں سوئیں، کریملن

15 جون 2018

ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ روسی خواتین اپنے ذاتی معاملات خود طے کر سکتی ہیں اور عالمی کپ مقابلوں کے دوران وہ اگر کسی کے ساتھ جنسی رابطہ پیدا کرنا چاہتی ہیں تو یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2zeAi
Fußball WM 2018 weblicher russischer Fan
تصویر: picture-alliance/empics/A. Davy

کریملن کی طرف سے روسی خواتین کی ذاتی زندگی پر یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے، جب روسی خاتون قانون دان  تامارا پلینٹنوا نے کہا تھا کہ روسی خواتین ورلڈ کپ مقابلوں کو دوران روس آنے والے سیاحوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے نے سے گریز کریں کیونکہ یوں ’روسی نسل‘ مخلوط ہو جانے کا خدشہ ہو گا۔ تاہم روسی حکومت نے اس سینیئر قانون دان کے اس تجویز کے جواب میں کہا کہ روسی خواتین جس کے ساتھ چاہیں، سوئیں۔

ستر سالہ خاتون سیاستدان تامارا پلینٹنوا روسی پارلیمان میں امور خانہ داری امور کی چیئرپرسن ہیں۔ وہ پہلے بی خبردار کر چکی ہیں کہ غیر ملکیوں سے جنسی رابطے کے نتیجے میں ایسا ممکن ہے کہ روسی خواتین ’کسی اور نسل‘ کے بچوں کی نشوونما کر رہی ہوں۔ نسل پرستی پر مبنی ان کا یہ بیان فٹ بال کے عالمی منتظم ادارے فیفا کی بنیادی اقدار سے متصادم تھا۔ فیفا نسل پرستی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

ایک ریڈیو پروگرام میں انہوں نے اپنے اس خدشے کا اظہار کہ ’روسی نسل خراب ہو سکتی ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی کپ مقابلوں کے دوران روس میں ’ایسی نوجوان خواتین ہوں گی جو کسی سے ملیں گی اور ان کے بچوں کو جنم دے دیں گی‘۔ اس معمر سیاستدان نے مزید کہا، ’’مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔‘‘

اس متنازعہ بیان میں تامارا پلینٹنوا نے مزید کہا، ’’ہمیں صرف اپنے بچوں کو ہی جنم دینا چاہیے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شادی کے نتیجے میں روسی خواتین کو اپنا وطن چھوڑ کر کہیں اور بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن انیس سو اسی میں روس میں اولمپک مقابلوں کا انعقاد کیا گیا تھا اور اس دوران غیر ملکی سیاحوں نے روسی خواتین کے ساتھ تعلقات قائم کیے اور بچے پیدا کرنے کے بعد انہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

تامارا پلینٹنوا کے ان بیانات کے کچھ گھنٹوں بعد ہی روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ان سے دوری اختیار کر لی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’روسی خواتین اپنے ذاتی معاملات کا خود خیال رکھ سکتی ہیں۔ وہ دنیا کہ بہترین خواتین ہیں۔‘‘

ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے