1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، اسلام آباد ماسکو کے در پر

عبدالستار، اسلام آباد
19 فروری 2018

کہا جا رہا ہے کہ مشکل میں گھرے پاکستان نے امریکی دباؤ سے بچنے کے لیے ماسکو کا رخ کر لیا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف دنیا کی دوسری عالمی طاقت کے دارالحکومت پہنچ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2sviH
Pakistan Verteidigungsminister Khawaja Muhammad Asif
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency

پاکستان میں کئی سیاسی تجزیہ نگاروں اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد کی ماسکو سے بڑھتی ہوئی قربت اس بات کی دلیل ہے کہ روس نہ صرف مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں اپنا اثر ورسوخ بڑھا رہا ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے ممالک بھی روس سے تعلقات بڑھانے کے خواہاں ہیں۔

Islamabad North-South Gas Pipeline Pakistan Russland Vertrag
تصویر: Press Information Department Pakistan


اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ ظفر جسپا ل کا کہنا ہے کہ روس کا خطے میں اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے اور وہ اپنا کھویا ہوا عالمی مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ’’پاکستان اور روس کے مفادات یکجا ہو رہے ہیں کیونکہ تحریک طالبان پاکستان، جس کے دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں، وہ نہ صرف پاکستان کے لیے خطرہ ہے بلکہ طالبان میں موجود چیچن اور ازبک روس اور وسطی ایشیا کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ تو روس اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ اس نے ہمیں ہیلی کاپڑز اور دوسرا عسکری سامان دیا ہے، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی غمازی کرتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’شام میں روس کے فوجی اقدامات نے ویسٹ ایشیا میں ماسکو کے لیے جگہ پیدا کر دی ہے اوراب اس خطے میں صرف امریکا ہی ایک طاقت نہیں بلکہ کئی ممالک اب روس کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں۔‘‘

کیا پاکستان واقعی سفارتی تنہائی کا شکار ہے؟

روس اور پاکستان کے درمیان جنگی مشقیں

روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت

کیا شنگھائی تعاون تنظیم امریکا کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے؟
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں روس امریکا مخالف ممالک کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے، ’’روس نے شام کی حمایت کر کے اس جنگ زدہ ملک کا نقشہ بدل دیا اور وہ ملک جہاں داعش کے دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے، وہ اب شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ یہ شکست روس، ایران اور حزب اللہ کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اب روس لبنان میں گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، جہاں ایران اور حزب اللہ کا بہت اثر ورسوخ ہے۔ لہذا وہ ایران اور حزب اللہ کی مدد سے وہاں بھی اثر و رسوخ حاصل کرے گا اور خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو شکست دینے کی کوشش کرے گا۔‘‘

Pakistan russische Truppen kamen zu Kriegsübungen an
تصویر: ISPR media


ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکا افغانستان میں استحکام قائم کرنا نہیں چاہتا اور یہ صرف اسلام آباد کا ہی خیال نہیں ہے بلکہ تہران، بیجنگ، انقرہ اور ماسکو بھی اس خیال کے حامی ہیں۔ تو خطے کے یہ ممالک افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ پورے علاقے میں معاشی طریقے ممکن ہو سکے۔ جب کہ امریکا اور بھارت اس استحکام کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ پاکستان کو یقین ہے کہ امریکا اب افغانستان میں استحکام نہیں چاہتا، اس لیے اب ہم روس، ایران اور چین کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف کے دورے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔‘‘
لیکن پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکڑ عمار جان کے خیال میں ماسکو کے لیے اپنا سابقہ کھویا ہوا عالمی طاقت کا مقام حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا، ’’مسئلہ یہ ہے کہ روس عسکری طور پر تو طاقت ور ہے لیکن اس کی معاشی حالت بہت اچھی نہیں ہے اور پھر عسکری طور پر بھی اس کی طاقت اتنی نہیں ہے جتنی کے امریکا کی ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کے دنیا بھر میں سینکڑوں فوجی اڈے ہیں۔ وہ جنوبی کوریا، افریقہ، یورپ، ایشیا ہر جگہ موجود ہے۔ روس کی عسکری موجودگی اس پیمانے پر ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی ملک بھی روس سے اس حد تک تعلقات نہیں بڑھائے گا کہ امریکا چراغ پا ہو جائے۔ یہاں تک کہ چین بھی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ چین کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی امریکا اور اس کا اتحادی یورپ ہے۔ تو چین بھی ایک حد تک ہی روس کے ساتھ جائے گا۔‘‘

خطے میں تبدیلیاں، پاکستان کا رجحان چین اور وسطی ایشیا کی جانب بڑھ رہا ہے