روس پر شدیددباؤ
27 اگست 2008سریبا سے کوسووو کی آزادی کے اعلان اور پھریورپی یونین کے کئی ممالک کی اس کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہی بہت سے ماہریں نے یہ کہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ روس بھی جلد ہی جارجیا کے علٰیحدگی پسند علاقوں جنوبی اوسیتیا اورابخازیہ کو تسلیم کرے گا۔ جرمن چانسلرانگیلا میرکل نے روس کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ کسی طرح سے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ علاقائی سالمیت ان بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے کہ جن پرتعاون کی بنیاد ہے اور یورپی یونین اس اصول کی بھرپور وکالت کرتی ہے۔
25 اگست کوروسی پارلیمان کے ان ریاستوں کی خود مختاری کا تسلیم کرنے کے مطالبے کےساتھ جرمن چانسلر نے روسی صدردمتری مید وی اے دیف کو خبردار کیا تھا۔ فرانس نے روس کے اس فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس کے اس اقدام سے خطے میں امن قائم کرنے کی تمام امیدیں ختم ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ فرانس نے روس اور جارجیا کے مابین جنگ بندی کے معاملے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
امریکی صدر کے ترجمان Tony Fratto کے مطابق روس کا معاہدوں پر دستخط کرنا اور فوری طور پرانہیں توڑنا، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کرنا اورچند لمحوں بعد ان سے انکارکرنا، اِن روسی اقدامات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ روس کی نئی سیاسی حکمت عملی ہے۔
قفقازتنازعے پر چینی موقف معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تو چینی وزرات خارجہ نے صاف کہ دیا کہ ابھی اُن کے پاس کچھ کہنے کونہیں ہے۔ چینی وزرات خارجہ کے ترجمان Qin Gang نے کہا کہ چینی حکومت ابھی حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔
تاہم تمام ترکشیدگی کے باوجود یورپی یونین کا موقف ہے کہ روس کے ساتھ مذاکرات ہرحال میں جاری رکھے جائیں گے۔ یکم ستمبرکو یورپی یونین کے سربراہان کی ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں قفقاز تنازعے کے ممکنہ حل تلاش کرنے پر بحث کی جائے گی۔ دوسری جانب روس نے بحیرہ اسود میں موجود نیٹو کے بحری جہازوں کی نقل حرکت پر نظر رکھنے کے لئے اپنے بحری جنگی جہاز روانہ کئے ہیں۔