1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’رشتہ داروں سے پوچھ کر مردے کے اعضاء نکالنا، غير انسانی‘

21 مارچ 2018

يورپ کی ايک اعلیٰ عدالت ميں دو مقدمات دائر کرائے گئے ہيں، جن کے مطابق وفات پانے والے افراد کے اہل خانہ کو مطلع کيے بغير اُن کے اندرونی اعضاء نکالنے کے سبب روس، يورپی ہيومن رائٹس کنونشن کے خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ugZY
USA Chirurgie Zimmer
تصویر: picture alliance/dpa/epa/Lightchaser Photography/Brigham and Womens Hospital

اسٹراسبرگ ميں يورپی عدالت برائے انسانی حقوق ميں اس سلسلے ميں دو مقدمات دائر کرائے گئے ہيں۔ خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کو دستياب دستاويزات سے ثابت ہوتا ہے۔ روس ان دنوں اس سلسلے ميں دو مقدمات کا سامنا کر رہا ہے اور آنے والے مہينوں ميں دونوں پر فيصلے متوقع ہيں۔ اس معاملے پر روس کا موقف ہے کہ ’کسی چاہنے والے کی وفات کے اطلاع ديے جانے کے فوری بعد رشتہ داروں سے اعضاء نکالنے کی اجازت طلب کرنا غير انسانی عمل ہے۔ روسی حکومت کے وکلاء کا موقف ہے کہ طبی لحاظ سے انسانی اعضاء کو قابل استعمال رہنے کے ليے انہيں مردہ شخص سے نکالنے کا عمل فوری طور پر کرنا ہوتا ہے اور اس دوران اجازت طلب کرنے کا وقت نہيں ہوتا۔

ايسوسی ايٹڈ پريس کی رپورٹ کے مطابق روس ميں رشتہ داروں کو مطلع کيے بغير مرنے والے افراد کے اعضاء نکالے جانے کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ اگر اجازت طلب کی جائے تو لوگ اس عمل سے منع کر ديں گے، جس کے نتيجے ميں ’ٹرانسپلانٹيشن‘ يعنی کسی اور ضرورت مند مريض ميں اعضاء لگانے کا نظام درہم برھم ہو جائے گا۔

قانونی ماہرين کے مطابق روس کا يہ عمل نہ صرف ’عدم اعتماد‘ کا سبب بنتا ہے بلکہ يہ يورپ ميں لوگوں کے بنيادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے ميں بھی آتا ہے۔ اس کے برعکس، چند حلقے اس عمل کو سراہتے ہيں اور ديگر ملکوں ميں اپنائے جانے کی وکالت بھی کرتے ہيں۔

مرنے والوں کے جسمانی اعضاء نکالنے کے ليے دنيا کے کئی ملکوں ميں رشتہ داروں سے اجازت حاصل کرنے کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔ آسٹريا، اسپين، سويڈن، انگلينڈ اور ہالينڈ سميت کئی ديگر يورپی ملکوں ميں ايسے نظام اپنائے جا رہے ہيں۔

پراسٹیٹ کینسر کا علاج

ع س / ا ا، ايسوسی ايٹڈ پريس