ایودھیا میں مندر کی تعمیر کا مطالبہ , مودی کے لیے درد سر
18 جولائی 2016بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی رواں برس جون میں جب افغانستان سے میکسیکو تک پانچ ممالک کا دورہ کر کے بھارت واپس لوٹے تو ان کے عزائم بہت بلند تھے۔
امریکا میں اپنے دورے کے دوران انہوں نے کانگریس سے خطاب میں جمہوریت کی مدح سرائی کی اور ساتھ ہی ساتھ بھارت میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بھی بات کی۔
تاہم جب مودی وطن واپس آئے تو انہیں ایودھیا میں مندر کی تعمیر کے حوالے سے اپنے سخت گیر ہندو حمایتیوں کے دباؤ کا سامنا تھا۔ نریندر مودی جو عالمی سطح پر تیزی سے ابھرتی معیشت یعنی بھارت کے سربراہ ہیں، ایودھیا میں مندر کی تعمیر کے لیے دباؤ کا شکار ہیں۔ ایودھیا بھارت کا قدیم شہر ہے۔ تاہم کچی سڑکوں اور سیوریج کے کھلے نظام والے اس خستہ حال شہر میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور مذہبی ہندو افراد کا مطالبہ ہے کہ یہاں مندر تعمیر کیا جائے۔
یاد رہے کہ سن انیس سو بانوے میں ایودھیا میں تعمیر بابری مسجد کو ہندوؤں نے منہدم کر دیا تھا۔ ایک بزرگ پنڈت اور ایودھیا مندر مہم کے سربراہ نرتیا گوپال داس نے نریندر مودی کے حوالے سے کہا، ’’ہم امید رکھتے ہیں کہ مندر انہی کے دور اقتدار میں تعمیر کیا جائے گا۔‘‘ ایودھیا شمالی بھارت کی ریاست اتر پردیش میں ہے جہاں متنازعہ مقام پراب فوجیوں کا پہرہ ہے اور چاروں جانب حفاظتی مینار بنا دیے گئے ہیں۔ یہاں مندر بننے یا نہ بننے کا فیصلہ اُتر پردیش میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں وزیر اعظم مودی کی جماعت کی ہار یا جیت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس مسئلے کا حل وزیر اعظم مودی کو ان کا اصلاحاتی اقتصادی ایجنڈا آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو گا۔ تاہم وزیر اعظم کے دفتر کے بیان کے مطابق بھارتی سرکار مندر تنازعے کو سیاست سے مکمل طور پر باہر رکھنا چاہتی ہے۔ ایودھیا میں قریب 24 برس قبل بابری مسجد کے انہدام نے بھارت کے آزاد ہونے کے بعد سب سے خونریز فسادات کو جنم دیا اور مذہبی تقسیم کو مزید پروان چڑھایا جو آج بھی قائم ہے۔ ایودھیا کا تنازعہ بھارتی وزیر اعظم مودی کی انتظامی صلاحیت کی اہم آزمائش بنتا جا رہا ہے۔
مودی ان ہندو انتہا پسندوں کو بھی ناراض نہیں کر سکتے جو ان کی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی بھارتی وزیر اعظم کو اپنے ان سخت گیر ہندو حمایتیوں کے ہاتھوں ملک کے معاشی ایجنڈے کو پٹری سے اترنے سے بھی بچانا ہے۔ بی جے پی کے اتر پردیش میں ریاستی سربراہ کاشو پرساد موریا سے جب ایودھیا میں مندر کی تعمیر کے مطالبے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا، ’’ہم ہر جمہوری ادارے کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس قضیے کو عدالت میں طے ہونا چاہیے۔‘‘
یاد رہے کہ سن انیس سو بانوے میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ممبئی میں پھوٹنے والے فسادات کے نتیجے میں لگ بھگ 1000 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔