1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رات گئے سفارت کاروں کے گھروں کی گھنٹیاں کون بجاتا ہے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
23 مارچ 2018

پاکستان اور بھارت دونوں نے ہی ایک دوسرے پر ان کے سفارت کاروں کو ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے الزامات عائد کیے ہیں۔ دونوں ملکوں کا ہی کہنا ہے کہ رات گئے نامعلوم افراد ان کے سفارت کاروں کے گھروں کی گھنٹیاں بجاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2uri8
Flagge Pakistan und Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Sharma

پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کو ٹھیک ایک ہفتہ قبل اسلام آباد بلایا گیا تھا اور وہ گزشتہ شب رات گئے نئی دہلی واپس پہنچے ہیں۔ حکومت پاکستان نے وضاحت کی تھی کہ اس نے بھارت میں پاکستانی سفارت کاروں اور ان کے رشتہ داروں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے واقعات کے حوالے سے صلاح و مشورے کے لئے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلایا ہے۔
سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر سہیل محمود آج 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر دہلی میں موجود نہیں ہوتے تو اسے اشتعال دلانے کے اقدام پر محمول کیا جا سکتا تھا کیوں کہ بھارت مسلسل کہہ رہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے ہائی کمشنر اجے بساریا کو اسلام آباد سے نہیں بلائے گا۔ بھارتی سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی ہائی کمیشن میں منعقد ہونے والی یوم پاکستان تقریب میں بھارتی وزارت خارجہ کے مملکتی وزیر ایم جے اکبر کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا ہے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ کشیدہ تعلقات کے مدنظر وہ غالباً شرکت نہیں کریں گے اور ان کی جگہ اسی رینک کے کسی دوسرے محکمے کے وزیر کو بھیجا جائے گا۔
اس دوران بھارت نے پاکستان کو ایک اور احتجاجی مراسلہ ارسال کیا ہے۔ یہ بھارت کی طرف سے پاکستان کو دیا جانے والا سولہواں احتجاجی مراسلہ ہے۔ اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں بھارتی سفارت کاروں اور ان کے اہل خانہ کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

Indien Proteste Tod Sarabjit Singh in Pakistan
تصویر: Reuters

اس حوالے سے بالخصوص تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلا واقعہ ڈپٹی ہائی کمشنر کے حوالے سے ہے جس میں کار میں سوار دو لوگوں نے ان کا اس وقت  پیچھا کیا، جب وہ ہائی کمیشن جا رہے تھے۔ دوسرے واقعے میں ہائی کمیشن کے نیول اتاشی کا ایک بائیک سوار نے اس وقت پیچھا کیا، جب وہ ایک میٹنگ میں شرکت کے لئے سرینا ہوٹل جا رہے تھے۔ تیسرا واقعہ ہائی کمیشن کے سیکنڈ سکریٹری (پالیٹکل) کے ساتھ پیش آیا۔ ان کا بھی ایک شخص نے انتہائی جارحانہ انداز میں اسٹریٹ ون کیفے تک پیچھا کیا۔ جہاں وہ ایک سفارت کار کے ساتھ آفیشیلی میٹنگ کے لئے گئے تھے۔ بھارت نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ہائی کمیشن کی ویب سائٹ کو اکثر بلاک کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے روزمرہ کے دفتری کام کاج متاثر ہو رہے ہیں۔ بھارت نے پاکستان سے ان تمام واقعات کی انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان نے بھی اسی طرح کا احتجاجی مراسلہ بھارت کو دیا تھا، جس میں نئی دہلی میں مقیم اس کے سفارت کاروں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانےکے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ پاکستان نے پہلی مرتبہ ا پنے سفارت کاروں کے بچوں کو بھی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ صرف آٹھ دنوں کے اندر اس کے سفارت کاروں اور ان کے اہل خانہ کو ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے کے چھبیس واقعات پیش آ چکے ہیں اور ان واقعات کے پیچھے بھارت کی حکومتی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کا ہی کہنا ہے کہ رات گئے نامعلوم افراد ان کے سفارت کاروں کے گھروں کی گھنٹیاں بجاتے ہیں۔ دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ ان کے سفارت کاروں کو تنگ کرنے والے ’خفیہ اہلکار‘ ہیں۔
دریں اثنا نئی دہلی واپسی کے بعد پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود نے ایک پروگرام کے دوران میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے اس معاملے پر اپنی حکومت سے بات کی ہے اور ہم اس معاملے کو جلد سے جلد حل کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ پرامن اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں اور ہم اب بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ اسی حوالے سے پاکستان نے چند سال قبل پر امن پڑوسی کا ایک ویژن بھی پیش کیا تھا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا اثر اس سال اجمیر شریف میں صوفی بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے سالانہ عرس پر بھی دکھائی دے رہا ہے۔ اس سال یہ عرس 19مارچ سے 29 مارچ کے درمیان منایا جا رہا ہے۔ اس عرس میں پاکستان سے ہر سال تقریباً پانچ سو زائرین شرکت کے لئے آتے تھے لیکن اس بار کسی کو بھی ویزا نہیں دیا گیا ہے۔ اسی طرحنئی دہلی میں وفاقی حکومت کے ماتحت ادارہ قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو کے 24 مارچ سے شروع تین روزہ عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لئے کسی پاکستانی ادیب یا شاعر کو ویزا نہیں دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کانفرنس میں تقریباً ایک درجن ممالک کے افراد شرکت کر رہے ہیں۔

Konflikt Indien Pakistan
تصویر: AP