1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ذہنی صحت کے مسائل چین اور بھارت میں زیادہ کیوں؟

صائمہ حیدر18 مئی 2016

چین اور بھارت میں ایک تہائی سے زائد افراد ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن ان میں سے بہت کم افراد کو طبی امداد کا حصول ممکن ہو پاتا ہے۔ بھارت میں سن دو ہزار پچیس تک ذہنی مریضوں کی تعداد میں ایک چوتھائی اضافہ متوقع ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ipot
Arzt Patient Krankenhaus China Shanghai
تصویر: picture-alliance/dpa/Wang Yadong

دنیا کی دو سب سے زیادہ گنجان آباد ممالک یعنی بھارت اور چین ذہنی، اعصابی اور منشیات کے استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل سےنبرد آزما ہے۔ تحقیق کے مطابق یہ تعداد دنیا کے تمام زیادہ فی کس آمدنی والے ممالک میں موجود ایسے مریض افراد کی تعدادسے زیادہ ہے۔خدشہ ہے کہ آنے والے عشروں میں یہ بوجھ مزید بڑھ جائےگا،خصوصا بھارت میں جہاں 2025 تک ذہنی مریض افرادکی تعداد میں ایک چوتھائی اضافہ متوقع ہے۔

دریں اثنا چین اینے ملک کے ضعیف افراد میں تیزی سے پھیلتی بیماری نِسیان کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کی کوششوں میں ہے۔ نسیان یا ڈیمنشیا کی بیماری چین میں 35 سال سے زائد عرصے قبل خاندانی منصوبہ بندی یا برتھ کنٹرول کے لئے لگائی گئی سخت پالیسییوں کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔

طبی ریسرچ کے جریدے 'دی لینسیٹ' میں شائع ہونے والے جائزوں کے مطابق دونوں ممالک میں ذہنی امراض سے نمٹنے کے لئے سہولیات نا کافی ہیں۔ یہ جائزہ ’’چین بھارت مینٹل ہیلتھ صحت الائنس‘‘ کے آغاز کے موقع پر شائع کیے گیا ہے۔

Bangladesch Mental Hospital, Pabna
تصویر: imago/UIG

تحقیقی رپورٹ کے مطابق چین میں ایسے لوگوں کی تعداد صرف چھ فی صد ہے، جن کے لئے عام ذہنی بیماریوں مثلا ڈپریشن اور اعصابی بے چینی کا علاج ممکن ہے۔ نشہ آور اشیا کے استعمال اور نِسیان کی بیماری میں مبتلا افراد بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔

اِس ریسرچ رپورٹ کی ٹیم کے سربراہ اور امریکہ کی ریاست اٹلانٹا کی ایموری یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ شنگھائی میں جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل فلپس کے مطابق ''چین میں ذہنی صحت کے نگہداشت کی افرادی قوت میں زیادہ کمی دیہی علاقوں میں شدید نوعیت کی ہے، آدھے سے زیادہ افراد ایسے ہیں جن میں شیزوفرینیا جیسے عوارض پوری طرح پھیل چکے ہیں لیکن ان کی تا حال تشخیص بھی نہیں ہو سکی ہے۔''

بھارت میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ ذہنی عارضوں میں مبتلا ایسے افراد کے لیے فراہم کی گئی علاج معالجے کی سہولت کی شرح اتنی ہی کم ہے جتنی کہ چین میں ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں ذہنی مریضوں کے لیے علاج معالجے کی شرح 70 فیصد یا اس سے زائد ہے۔

ذہنی صحت کے لئے ترقی یافتہ ممالک اور عالمی سطح پر ابھرتی اقتصادیات کے حامل ان دونوں ملکوں یعنی چین اور بھارت کی جانب سے مختص فنڈز میں بھی نمایاں فرق ہے۔ دونوں ہی ممالک میں صحت عامہ کے لیے مختص بجٹ کا ایک فیصد سے بھی کم ذہنی صحت کی مد میں رکھا گیا ہے۔ امریکہ میں یہ شرح قریب چھ فی صد ہے جبکہ جرمنی اور فرانس میں دس فی صد یا اس سے زیادہ ہے۔

چین اور بھارت دونوں ہی ممالک نے اپنے ذہنی مریضوں کی بحالیٴ صحت کے لیے ترقی پسندانہ پالیسیوں کو لاگو ضرور کر رکھا ہے لیکن حالیہ ریسرچ کے مطابق زمینی حقائق اب بھی وہی ہیں جو پہلے تھے۔

تحقیق نگاروں کی رائے میں ذہنی مریضوں کی شفایابی کے لیے روایتی معا لجین سے مدد لی جا سکتی ہے۔ طبی مسائل کے تجزیہ کاروں کی تجویز ہے کہ ان دونوں ملکوں میں ایسے امراض کے علاج کے لیے، یعنی چین میں قدیمی طریقہٴ علاج کے ڈاکٹروں اور بھارت میں یوگیوں کو ذہنی بیماریوں بارے بنیادی معلومات اور تربیت فراہم کرنے سے مریضوں کے لیے صحت کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔