دہشت گردی کے خلاف عالمی تعاون چاہتے ہیں، پوٹن
11 جنوری 2016پوٹن نے اپنے انٹرویو میں الزام عائد کیا کہ مغربی ممالک بین الاقوامی تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں۔ ’’ہمیں ایک مشترکہ خطرے کا سامنا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یورپ اور دنیا کے دیگر تمام ممالک مل جائیں تاکہ ہم مشترکہ انداز سے ان خطرات کا مقابلہ کر سکیں۔‘‘
صدر پوٹن کا مزید کہنا تھا، ’’میں یہاں صرف دہشت گردی ہی کی بات نہیں کر رہا بلکہ جرائم، انسانوں کی اسمگلنگ اور ماحولیاتی تحفظ سمیت دیگر مشترکہ چیلنجز کی بات بھی کر رہا ہوں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ روس ہی تمام معاملات میں دیگر ممالک کے طے کردہ فیصلوں پر راضی ہو گا۔
روسی فضائیہ شام میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی حملوں میں مصروف ہے۔ ماسکو حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس تنظیم کا خاتمہ چاہتی ہے، کیوں کہ اس تنظیم میں سینکڑوں روسی شہری بھی شامل ہو چکے ہیں، جو روس کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
اسی تنظیم نے مصر میں رواں برس اکتوبر میں ایک روسی مسافر بردار طیارے کی تباہی کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ مصری علاقے سینائی میں تباہ ہونے والے اس جہاز میں سوار تمام 224 افراد مارے گئے تھے۔
تاہم یہ امر اہم ہے کہ روس نے اس تنظیم کے خلاف فضائی کارروائیوں میں مصروف اور امریکی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کی، بلکہ انفرادی طور پر ہی فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا۔ امریکا اور مغربی ممالک کا الزام ہے کہ روسی طیارے اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کی بجائے زیادہ تر ان باغیوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں، جو شامی صدر بشارالاسد کے خلاف گزشتہ کئی برسوں سے برسرپیکار ہیں۔
اپنے اس انٹرویو میں صدر پوٹن نے کہا کہ عراق اور لیبیا میں مغربی مداخلت نے خطے بھر میں دہشت گردی کے فروغ میں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے گزشتہ برس ستمبر میں کیے گئے اپنے خطاب کا حوالہ بھی دیا۔
دلادیمیر پوٹن نے ایک مرتبہ پھر مشرقی یورپ میں نیٹو کے دفاعی میزائل نظام کی تنصیب پر شدید تنقید بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک بین الاقوامی تنازعات پیدا کرتے ہیں اور انہیں ہوا دیتے ہیں۔