1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کے خطرات، تعلیمی اداروں پر خوف کے سائے

26 اکتوبر 2009

دہشت گردی کی زد میں آئے ہوئے پاکستان کے تعلیمی شعبے میں معمول کی سر گرمیاں پوری طرح بحال نہیں ہو سکی ہیں۔

https://p.dw.com/p/KFnj
پاکستان میں اس سے قبل بھی تعلیمی اداروں کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہےتصویر: AP

پچھلے ہفتے اسلامی یو نیورسٹی میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں آٹھ افراد کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کے مزید حملوں کے خدشات کی وجہ سے ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کر دئے گئے تھے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے پیرکے روز مؤثر حفاظتی انتظامات کے ساتھ ان تعلیمی اداروں کو کھولنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن معمول کی تعلیمی سر گرمیاں پوری طرح شروع نہیں ہو سکی ہیں۔

Flash-Galerie Pakistan
اسلامک یونیورسٹی کے طلبا ہلاک ہونے والے ساتھیوں کی اجتماعی نماز جنازہ کے دورانتصویر: AP

صوبہ سرحد کی حکومت کے اعلان کے مطابق صوبے کے تمام تعلیمی ادارے ابھی بند رہیں گے۔ ادھر بلوچستان میں بھی صوبائی وزیر تعلیم کے قتل کے بعد صوبے بھر میں تعلیمی ادارے بند ہیں۔ پنجاب، سندھ اور وفاقی دارالحکومت کے بعض علاقوں میں تعلیمی ادارے پیر کے روز جب کھلے تو ان اداروں میں خوف اور عدم تحفظ کے احساسات نمایاں تھے۔ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے بہت سے تعلیمی ادارے نہیں کھل سکے اور کئی تعلیمی اداروں کو حفاظتی انتظامات نا کافی ہونے کی وجہ سے پولیس کی طرف سے بند کروا دیا گیا۔

ادھر لاہور میں فاسٹ یو نیورسٹی، ایف سی کالج، امریکن سکول، لاہور گرائمر سکول، بیکن ہائوس سکول، کیتھریڈل ہائی سکول، نیشنل کالج آف کامرس سمیت کئی ادارے اپنی تعلیمی سر گرمیاں شروع نہیں کر سکے۔ 200 سے زائد تعلیمی اداروں کو مناسب حفاظتی تدابیر نہ ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا ہے۔ مسلح پولیس اہلکار تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی چیک کر رہے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ بھاری فیس لینے والے نجی تعلیمی ادارے اپنی سیکیورٹی کا خود بندو بست کریں اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی منظم کارروائیوں کے آگے ان کے حفاظتی انتظامات بہت ناکافی ہیں۔ اس صورت حال نے جہاں طلبہ و طالبات کو خوف و ہراس سے دو چار کر رکھا ہے۔ وہاں اس سے والدین کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

سب سے زیادہ پریشان کن صورت حال پنجاب یو نیورسٹی میں ہے جہاں 30,000 طلبہ 8,000 ملازمین اور 1000اساتذہ دہشت گردانہ حملوں کے خدشات کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق پچھلے دنوں للاکے مقام پر گرفتار ہونے والے دہشت گرد سے ملنے والی معلومات سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے کہ دہشت گرد پنجاب یو نیورسٹی کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔

Pakistan Polizist in Islamabad nach Anschlag
اسلام آباد میں سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود یہ حملے ملک بھر میں خوف میں اضافے کا باعث بنے ہیںتصویر: AP

اس صورت حال میں پنجاب یو نیورسٹی کی انتظامیہ نے سیکیورٹی کے انتہائی مؤثر انتظامات کئے ہیں۔ غیر متعلقہ افراد کے یو نیورسٹی میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سیکیورٹی کے انتظامات کی نگرانی کے کے لئے فوج کے سپیشل سروسز گروپ کے ایک ریٹائرڈ افسر کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں۔ یو نیورسٹی آنے والوں کی نگرانی کے لئے CCTV کیمرے نصب کئے جا رہے ہیں اور واک تھرو گیٹ بھی لگائے جا رہے ہیں۔ احتیاطی تدابیر پر مشتمل پمفلٹس بانٹے جا رہے ہیں۔ یو نیورسٹی میں گاڑیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یونیورسٹی میں سیکیورٹی اہلکاروں کے گشت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

پنجاب یو نیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان سارے انتظامات کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات ہو گئے ہیں اور اب کچھ نہیں ہو گا۔ مجاہد کامران کا کہنا ہے کہ جی ایچ کیو، پولیس ہیڈکوارٹر اور آئی ایس آئی کے دفاتر کو نشانہ بنانے والے دہشت گردکسی بھی تعلیمی ادارے پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ان دہشت گردوں کا مقابلہ پوری قوت سے کیا جانا چاہیے اور انسانی جانوں کی حفاظت کے لئے ہر ممکن اقدام کئےجانا چاہیں۔ ان کے مطابق دہشت گردی کے خطرات کے سامنے دفاعی پوزیشن اختیار نہیں کرنی چاہیے بلکہ معاشرے کے تمام طبقات اور حکومت کو دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے اور دہشت گردی کے ذمہ داروں کو بے نقاب کر کے عوام کو اعتماد دیا جانا چاہیے۔

رپورٹ : تنویر شہزاد، لاہور

ادارت : عاطف توقیر