1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردوں کی رہائی، سرکاری وکیلوں کی پسپائی

14 مئی 2010

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں انصاف کے ایوانوں میں ناکامیوں سے دو چار نظر آ رہی ہیں۔ دہشت گردی کے مقدمات کی نامناسب پیروی کی وجہ سے شدت پسندی میں ملوث ملزمان کو عدالتوں سے سزائیں دلوانا مشکل ہوگیا ہے۔

https://p.dw.com/p/NOO8
تصویر: AP

اس سلسلے میں ایک بڑا واقعہ 13 مئی کو سامنے آیا، جب راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی ایک بس اور پاک فوج کے لفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ پر خود کش حملوں کے سلسلسےمیں گرفتار ہونے والے نو ملزمان کو جرم ثابت نہ ہونے پر بری کرنے کا حکم دے دیا ۔

اس سے چند روز پہلے راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے میریٹ ہوٹل کے باہر ہونے والے بم دھماکے کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے چار ملزمان کو ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بناء پر بری کر دیا تھا۔

اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجا ب میں دہشت گردی کے سینکڑوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2009 میں دہشت گردی کے جن 629 مقدمات کے فیصلے ہوئے، ان میں سے 471 مقدمات میں مناسب اور کافی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان کو کوئی سزائیں نہ سنائی جا سکیں۔

Bombenanschlag in Islamabad Pakistan
اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل کے باہر ہونےوالے بم دھماکے کے چار ملزمان بھی ناکافی شواہد کی بنا پر بری کر دئے گئےتصویر: AP

آئی ایس آئی کی بس اور پاکستانی فوج کے سرجن جنرل پر خود کش حملوں کے ملزموں کے بری ہونے کے عدالتی فیصلے کے بعد ملکی فوج اور پنجاب حکومت کے درمیان ایک تناو کی سی کیفیت محسوس کی جا رہی ہے اور صوبے کے پرو سیکیوشن کے محکمے کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

اس صورتحال میں جمعے کے روز پنجاب حکومت نے اس سینئیر سرکاری وکیل کو اس کے عہدے سے معطل کر دیا جس نے آئی ایس آئی کی بس اور لفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ کی گاڑی پر خود کش حملوں کے مقدمات کی ریاست کی طرف سے پیروی کی تھی۔

پنجاب حکومت نے اس موقع پر ایک خصوصی تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو ان وجوہات کا جائزہ لے گی جن کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو عدالتوں سے سزا نہیں دلوائی جا سکی۔

پروسیکیوٹر جنرل پنجاب سید زاہد حسین بخاری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس بات کی چھان بین کی جائے گی کہ اس مقدمے کی تحقیقات کرنے ، شواہد جمع کرنے اور عدالتی پیروی کرنے میں کہیں تساہل تو نہیں برتا گیا اور اگر ایسا ہوا ہے تو اس کے ذمہ داروں اور ان کے لئے سزاوں کا تعین بھی کیا جائے گا۔

سید زاہد بخاری کا یہ بھی کہنا تھا کہ تحقیقات میں یہ جائزہ بھی لیا جائے گا کہ پاک فوج نے اپنے ایک اعلیٰ افسر کے قاتلوں کو سزا دلوانے کےلئے کیا اقدامات کئے ۔ کیا ان کے محکمے کے افسران نے مقدمے کی پیروی کی اور کیا پاک فوج کا کوئی نمائندہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں آتا رہا یا نہیں؟ ڈسٹرکٹ پپبلک پراسیکیوٹر راولپنڈی کے کندھوں پر ان سوالوں کی کھوج کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔

Pakistan Anschlag Lahore 12.3.2010 Flash-Galerie
پاکستان کے ثقافتی مرکز لاہور میں بارہ مارچ کو ہونے والے ایک بم حملے کے بعد کی تصویرتصویر: AP

زاہد بخاری نے بتایا کہ ان تحقیقات کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات کے سلسلے میں کی جانے والی عدالتی چارہ جوئی کے حوالے سےسرکاری اہلکاروں کی تیاری کو بہتر بنانے اور دہشت گردوں کے مقدمات کی پیروی کرنے کے حوالے سے نئی اور موثر پالیسی بنانے میں مدد ملے گی۔

پاکستان کے سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ عدالتیں بعض اوقات خواہش کے باوجود بھی ایسے دہشت گردوں کو سزائیں نہیں دے سکتیں جن کے خلاف مناسب شہادتیں یا ٹھوس شواہد عدالت میں پیش نہیں کئے جاتے۔

انہوں نے پاکستان کے قانون شہادت میں ترمیم، سائنسی بنیادوں پر ثبوت جمع کرنے اور پولیس کے محکمے میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ خالد رانجھا کے مطابق پاکستان میں دباو کی وجہ سے عام طور پر پولیس ٹھوس شواہد اکٹھا کرنے کے بجائے نمائشی اقدامات زیادہ کرتی ہے۔

’’جلد بازی میں گرفتاریوں، اعلیٰ حکام کو متاثر کرنے اور سب کچھ اچھا ہونے کی رپورٹ دینے کے بجائے اگر پولیس ٹھوس شواہد جمع کرنے کے لئے محنت کرے تو دہشت گردوں کو عدالتوں کے ذرہعے سزائیں دلوانا بھی ممکن ہو سکے گا۔‘‘

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: کشور مصطفٰی